68۔ نہ گراؤ اشک بھی آنکھ سے نہ لبوں سے نکلے کراہ بھی

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ221۔223

68۔ نہ گراؤ اشک بھی آنکھ سے نہ لبوں سے
نکلے کراہ بھی

نہ گراؤ اشک بھی آنکھ سے نہ لبوں سے
نکلے کراہ بھی
جو زمینِ دل میں دبی رہی ہوئی بارور
وہی آہ بھی
مِرا ہاتھ تھام لے رہبرا مُجھے منزلوں
کا نہیں پتہ
ہیں بڑی کٹھن یہ مسافتیں بڑی پیچدار
ہے راہ بھی
ہیں قدم قدم نئے مرحلے ، نئی الجھنیں
، نئے مسئلے
مجھے چاہیے تِرا فضل بھی ترا لطف تیری
پناہ بھی
یہ نجوم و شمس و قمر سبھی ترا آئینہ
ہیں بنے ہوئے
ہیں تِری ہی راہ دکھا رہے گل و برگ
بھی ِپر کاہ بھی
یہ غبار سا ہے چڑھا ہوا جو افق پہ کاش
چھٹے ذرا
کہ یہ تیرہ بخت بھی دیکھ لیں ترا مہر
بھی تیرے ماہ بھی
نہ زباں پہ شکوے ہوں نہ گِلے کہ بڑھیں
گے اس سے تو فاصلے
جو اَنا نہ بیچ سے جا سکی تو نہ ہو
سکے گا نباہ بھی
جو جہاں میں آیا تھا پھول سا وُہ گیا
تو ماندہ تھکا ہوا
تھا بڑا نڈھال وجود بھی بڑی مضمحل تھی
نگاہ بھی
کبھی یورشیں ہیں ہموم کی کبھی مسئلوں
کا ہجوم ہے
کبھی دِل کی بستی کو گھیر لیتی ہے وسوسوں
کی سپاہ بھی
یہ نہیں کہ اب وُہ وفا نہیں ، نہیں
ایسا کچھ تو ہوا نہیں
ہے مگر بجا تِرے ساتھ ہی رہی دل میں
دنیا کی چاہ بھی
میں بھٹک بھٹک کے قدم قدم پھری ہوں
تری ہی تلاش میں
مِری دلگدازی کی کیفیت مرے پیار کی
ہے گواہ بھی
مرے چارہ گرذرا جلد آ مرا دل ہے پھوڑا
بنا ہوا
مرے درد کا بھی علاج کر مرے حوصلے کو
سراہ بھی
اُنہیں زندگی کی نوید دے جنہیں مار
ڈالا ہے ہجر نے
دِلِ ریزہ ریزہ لئے ہوئے جو پڑے ہیں
چشم براہ بھی
کبھی اپنی دید کرائیے، ذرا دِل کی آس
بندھائیے
کبھی مُسکرا کے نظر بھی ہو کوئی بات
گاہ بگاہ بھی
مری روح تُو، مری جان تُو ، مری آس
تُو ، مرا مان تُو
مرا ذوق بھی، مرا شوق بھی ، مری آرزو
مری چاہ بھی
کوئی بدگمان یہ کہہ نہ دے ہے کہاں جسے
تھے پکارتے
کرو بے بسی کو نہ مشتہر نہ عیاں ہو
حالِ تباہ بھی
مری فرد ِجرم جو لکھ رہے ہیں فرشتے
اُن سے یہ عرض ہے
مری حسرتیں بھی شمار ہوں جو لکھے ہیں
میرے گناہ بھی
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م
صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں