82۔ انساں کی زندگی ہے یا بلّور کا ایاغ

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ255۔256

82۔ انساں کی زندگی ہے یا بلّور کا ایاغ

انساں کی زندگی ہے یا بلّور کا ایاغ
یا آندھیوں کی زد میں ہے رکھا ہوا چراغ
روحِ ازل کے راز کی تحقیق کیا کرے
خود اپنی ذات کا جسے ملتا نہ ہو سراغ
رنگین پیرہن میں چھپائے تو کیا کِیا
مٹتے نہیں مٹائے سے محرومیوں کے داغ
اہلِ چمن کو سود و زیاں کا نہیں خیال
نہ باغباں کو فکر کہ مرجھا رہا ہے باغ
گلشن کو اپنی مِلک تصور کئے ہوئے
چوٹی پہ ایک سرو کی بیٹھا ہوا ہے زاغ
ہو کس کا اعتبار کہ سوداگرانِ وقت
دیتے ہیں برگ خشک دکھاتے ہیں سبز باغ
وہ آپ اپنے راز کی تشہیر بن گئے
پیشانیوں پہ ثبت ہیں رسوائیوں کے داغ
دونوں ہی ایک تیز سفر کر رہے ہیں طے
نہ وقت کو قرار نہ انساں کو ہے فراغ
اہلِ وفا کے گِرد اُجالے رہے محیط
لو دے اُٹھے ہیں دل جہاں بجھنے لگے
دماغ
یاروں نے اتنی دور بسالی ہیں بستیاں
اب اُن کے نقشِ پا کا بھی ملتا نہیں
سراغ
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں