97۔ شروع جنت سے ہو کے اس جہاں تک بات پہنچی ہے

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ289

97۔ شروع جنت سے ہو کے اس جہاں تک بات پہنچی
ہے

شروع جنت سے ہو کے اس جہاں تک بات پہنچی
ہے
کہاں سے بات نکلی تھی، کہاں تک بات
پہنچی ہے
خطا کرتے نہ گر آدم تو نقشہ اور ہی
ہوتا
ذرا سی ایک لغزش سے کہاں تک بات پہنچی
ہے
یہ نسلِ آدمِ خاکی کی نکتہ دانیاں توبہ
نکل کے اب مکاں سے لا مکاں تک بات پہنچی
ہے
کہیں ایسا نہ ہو یہ زندگی کا روگ بن
جائے
وہیں پہ ختم کر دیجے جہاں تک بات پہنچی
ہے
زمانے بھر میں میرے راز کی تشہیر اب
ہوگی
الٰہی خیر میرے راز داں تک بات پہنچی
ہے
کسی محفل میں جب بھی تذکرہ ہو جورِ
اعدا کا
تو رفتہ رفتہ لطفِ دوستاں تک بات پہنچی
ہے
سرِ مقتل نظر آنے لگی ہے خون کی سرخی
کہ جب بھی اہل دل کی داستاں تک بات
پہنچی ہے
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں