109۔ سقوطِ ڈھاکہ

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ322۔324

109۔ سقوطِ ڈھاکہ

واقعہ کیسا ہے یہ اسلام
کی تاریخ کا
ذہن ہے ماؤف اے مالک یہ
سب کیا ہو گیا
کافروں کے سامنے ہتھیار
ڈالے برملا
قومِ مسلم کو بھری دنیا
میں رسوا کر دیا
آگ ہے اولادِ ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا
امتحاں مقصود ہے
چیخ اُٹھی قوم دو اب اِن
سوالوں کا جواب
بولو کیا دیکھا یہی تھا
قائداعظم نے خواب
تم اگر نااہل تھے تو کیوں
کیا ہم کو خراب
تم سے ہم لیں گے شہیدوں
کے لہو کا اب حساب
بات جب حد سے بڑھی تو
پھر بصد عجز و نیاز
لاش دے کر ملک کی بولے
کہ لے اس کو سنبھال
قوم کو لیڈر ملے ہیں کس
قدر ملت فروش
اب بھی کیوں آتا نہیں
ہے اپنی بے ہوشی کو ہوش
دل کے ہنگامے مئے مغرب
نے کر ڈالے خموش
قوم کو ملتا نہیں اب کوئی
پیغام سروش
اب نوا پیرا ہے کیا گلشن ہوا برہم تیرا
بے محل تیرا ترنم نغمہ
بے موسم تیرا
سوٹ امریکہ کا ہے اور
بوٹ ہے جاپان کا
جرمنی کی ٹائی ہے رومال
ہے ایران کا
روح ان کی روس کی ہے ذہن
انگلستان کا
رہ گیا اک جسدِ خاکی سو
ہے پاکستان کا
ہم یونہی سوتے رہے تو
گورکن تہران سے
آئیں گے غسال کابل سے
کفن جاپان سے
بن گیا ہے پاک کا بازار
میڈ ان چائنا
سرحدوں پہ دمدمے ہتھیار
میڈ ان چائنا
چیز جو لینے کی تھی ان
سے وہ ہم نے لی نہیں
لیڈروں کا آہنی کردار
میڈ ان چائنا
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس
زیاں جاتا رہا
خودبخود بھی ٹوٹ کر گرتی
ہیں زنجیریں کہیں
اِس طرح قوموں کی بھی
بدلی ہیں تقدیریں کہیں
ہو نہ یک جہتی تو کام
آتی ہیں تدبیریں کہیں
ہاتھ سے تخریب کے ممکن
ہے تعمیریں کہیں
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون
دریا کچھ نہیں”
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م
صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں