08۔ قصیدہ در مدح حضرت مسیح موعود تبلیغ سلسلہ

کلام
ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 13۔16

08۔ قصیدہ در مدح حضرت مسیح موعود
تبلیغ سلسلہ

1920ء
دل ہے سر گرم ومحوِیادِیار
روح مست ِمحبتِ دلدار
میرا ہر ذرہ شکر سے معمور
جاں رہینِ عنایت دادار
بوئے گل سے ہوا معطر ہے
باغِ احمد میں آگئی ہے بہار
ہے گلستاں میں وہ مہک پیدا
جس سے شرمندہ بوئے مشک ِتتار
پھر شگوفہ کھلا ہے بستاں میں
نخلِ اسلام پھر ہے لایا ثمار
چہچہاتی ہے باغ میں طوطی
گارہی ہے خوشی کے راگ ہزار
آگیا رونق ِ بہارِ حسن
دلبرو دلستان ،اوردلدار
بے نظیر و یگانہ اندر خلق
منفردزیرِگنبدِ دوّار
آگیا مہدی و مسیحِ زماں
رہبرِ دین احمدؐ ِمختار
آگیا جانشین ِ خیرِ رسل
نائبِ پادشاہ ِ ہردودیار
آگیا شہر یارِ ملک دیں
جیشِ اسلام کا سپہ سالار
اب گیا وقتِ ذلت وخواری
آگیا وقتِ عزّوجاہ ووقار
مسلمِ نیم جان!آنکھیں کھول
بختِ خوابیدہ ہوگیا بیدار
چل رہی ہے نسیم رحمت کی
آج ہے عاصیوں کا بیڑا پار
֍
دشمنِ بدخصال!ہوش میں آ
سوچ!پڑتا ہے کس پہ تیرا وار
یاد کر جب کہ کفر کا تھا زور
دینِ حق چھپ گیا تھا زیرِ غار
نورِ ایمان تھا ہوا مفقود
پڑگیا تھا دلوں پہ گردوغبار
باغِ احمد میں آگئی تھی خزاں
پھول تھے کم ہوئے ،بڑھے تھے خار
دین پر دار کفر وبدعت کے
ہورہے برملا تھے لیل و نہار
ہو گیا تھا ہوامیں پیدا زہر
اوربگڑسب گئے تھے برّوبحار
کس نے پھر آکے رنگ بدلا یہ
باغِ احمدؐ میں کون لایا بہار
کس نےایمان پھر کیا قائم
او ربہادیں یقین کی انہار
شانِ اسلام کس نے ظاہر کی
کس نے پیدا کیا وہ دیں کا شعار
کس نے آکر جمایادنیا میں
پھر وہ رنگِ محمدؐی دربار
کس نے دیوِضلال و بدعت کو
 اپنے حملوں سے کردیا فی النّار
کس نے قصرِ عقیدۂ تثلیث
کردیا ایک ضرب سے مسمار
کس کے دھاووں سے تنگ آآکر
کفر کی فوج ہو رہی ہے فرار
ہاں کبھی یہ بھی تُو نے غور کیا
دشمنِ حق !تجھے خدا کی سنوار
کون تھاوہ کہ   واسطے جس کے
مہر و مہ ہوگئے تھےتیرہ وتار
کون تھا وہ کہ واسطے جس کے
خالی طاعوں نے کردئیے تھے دیار
کون تھا وہ کہ واسطے جس کے
چل گئی تھیں یہ خون کی انہار
کون تھا وہ کہ واسطے جس کے
زار کا ہوگیاتھا حال ِزار
کون تھا وہ کہ واسطے جس کے
ہل گئے زلزلوں سے شہرودیار
کون تھا وہ کہ واسطے جس کے
جو اٹھا وہ ہوا ذلیل و خوار
یاد کر تو وہ خصم روبہ مثال
ہاویہ میں گرا جو آخرکار
یاد کر وہ عدو، کہ تیر ِدعا
جالگا تھا جسے سمند رپار
یاد کر وہ عنیدِ بد باطن
پیٹ میں جس کے گھس گئی تھی کٹار
یادکر،وہ  مکفرِ اول
خوار کرتا تھا پر ہواخود خوار
یاد کر دشمن ِ دراز رسن
اپنے ہی دام کا ہوا جو شکار
یاد کر پھر وہ ڈاکٹر مرتد
جس پہ کھینچی فرشتہ نے تلوار
کیا نہیں یہ مقام عبرت کا
ہائے تو کر کبھی تو سوچ بچار
سوچ،پھرسوچ ،دشمنِ ناداں
سوچ،پڑتا ہے کس پہ تیرا وار
فرق بیں از کجا ست تابکجا
توہے شیطاں کا، وہ خدا کا یار
֍
احمدی !تجھ کو شکر کی جاہے
تونے ایماں کے پالئے ہیں ثمار
تجھ کو اللہ نے نوازا ہے
تجھ کو بخشا ہے اس نے قرب وجوار
تجھ پہ اس نے کیا ہے فضل و کرم
تجھ پہ کی ہے نگاہ ِ لطف وپیار
یہ ہے وہ بار جو نہ اترے گا
جان بھی اپنی گر کرے تُو نثار
اب کوئی راہ ہے توہے یہی ایک
جس سے کچھ اترے شکر کا یہ بار
عشقِ مولامیں جل کے ہو جا خاک
راہ مولیٰ میں پھر اڑا یہ غبار
تازِ شوروفغاں ِعاشقِ زار
خلق گرددزِخوابِ خود بیدار

اپنا تبصرہ بھیجیں