22۔ ہم نے تو آپ کو اپنا اپنا کہہ کر لاکھ بلا بھیجا

کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ60۔61

22۔
ہم نے تو آپ کو اپنا اپنا کہہ
کر لاکھ بلا بھیجا

یہ نظم استاذی المکرم حضرت ملک سیف الرحمن صاحب کی یاد میں ١٩٩٠ء میں کہی گئی اور
ان ہی کی زبانی اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہی تھی۔
جائیں جائیں ہم روٹھ گئے ، اب آ کر
پیار جتائے ہیں
جب ہم خوابوں کی باتیں ہیں ، جب ہم
یادوں کے سائے ہیں
اب کس کو بھیج بلائیں گے ، کیسے سینے
سے لگائیں گے
مر کر بھی کوئی لوٹا ہے ، سائے بھی
کبھی ہاتھ آئے ہیں
کیا قبروں پر رو رو کر ہی ، نینوں کی
پیاس بجھا لیں گے
کیا یوں بھی کسی نے رُوٹھے یار منا
کر بھاگ جگائے ہیں
جو آنکھیں مند گئیں رو رو کر ، اور
گھل گھل کے جو چراغ بجھے
اب اُن کی پگھلی یادوں میں کیا بیٹھے
نِیر بہائے ہیں
جو صبح کا رَستہ تکتے تکتے ، اندھیاروں
میں خواب ہوئے
اب اُن کے بعد آپ اُن کے لئے، کیا خاک
سویرے لائے ہیں
ہم نے تو آپ کو اپنا اپنا، کہہ کر لاکھ
بلا بھیجا
اِس پر بھی آپ نہیں آئے ، آپ اپنے ہیں
کہ پرائے ہیں
اب آپ کی باری ہے تڑپیں ، اب آپ ہمیں
آوازیں دیں
سوتے میں ہنسیں ، روتے جاگیں کہ خواب
ملن کے آئے ہیں
ہم جن راہوں پر مارے گئے ، وہ سچ کی
روشن راہیں تھیں
ظالم نے اپنے ظلم سے خود ، اپنے ہی
اُفق دھندلائے ہیں
ہم آ بھی بسے ہیں اپنے خوابوں کی سرمد
تعبیروں میں
آپ اب تک فانی دنیا میں ، سپنوں سے
دل بہلائے ہیں
ہر خوشبو اور ہر رنگ کے لاکھوں پھول
کھلے ہیں آنگن میں
پھر چند گلوں کی یادیں کیوں ، کانٹوں
کی طرح تڑپائے ہیں
ہم سراَفراز ہوئے رُخصت ، ہے آپ سے
بھی اُمید بہت
یہ یاد رہے کس باپ کے بیٹے ہیں ، کس
ماں کے جائے ہیں
جلسہ سالانہ جرمنی ١٩٩٠ء

اپنا تبصرہ بھیجیں