62۔ پیٹھ میدانِ وغا میں نہ دکھائے کوئی

کلام
محمود صفحہ109

62۔ پیٹھ میدانِ وغا میں نہ دکھائے کوئی

پیٹھ میدانِ وغا میں نہ دکھائے کوئی
منہ پہ یا عشق کا پھرنام نہ لائے کوئی
حسنِ فانی سے نہ دل کاش لگائے کوئی
اپنے ہاتھوں سے نہ خاک اپنی اُڑائے
کوئی
کون کہتا ہے کہ لگی دل کی بجھائے کوئی
عشق کی آگ مرے دل میں لگائے کوئی
صدمۂ درد و غم و ہم سے بچائے کوئی
اس گرفتارِ مصیبت کو چھڑائے کوئی
رہ سے شیطان کو جب تک نہ ہٹائے کوئی
اس کے ملنے کے لیے کس طرح آئے کوئی
اپنے کوچے میں تو کتے بھی ہیں بن جاتے
شیر
بات تب ہے کہ مرے سامنے آئے کوئی
دعوٰئ حسنِ بیاں ہیچ ہے مَیں تب جانوں
مجھ سے جو بات نہ بن آئے بنائے کوئی
ہجر کی آگ ہی کیا کم ہے جلانے کو مرے
غیر سے مل کے مرا دل نہ دُکھائے کوئی
دیدۂ شوق اُسے ڈھونڈ ہی لے گا آخر
لاکھ پردوں میں بھی گو خود کو چھپائے
کوئی
گزر و مُگدر کے اُٹھانے سے بھلا کیا
حاصل
خاک آلودہ برادر کو اُٹھائے کوئی
خفگی دو چار دنوں کی تو ہوئی پر یہ
کیا
سالہا سال مجھے منہ نہ دکھائے کوئی
جرعۂ بادۂ اُلفت جو کبھی مل جائے
 دختِ رز کو نہ
کبھی منہ سے لگائے کوئی
تشنگی میری نہ پیالوں سے بجھے گی ہرگز
خُم کا خُم لے کے مرے منہ سے لگائے
کوئی
خلق و تکوینِ جہاں راست، یہ سچ پوچھو
تو
بات تب ہے کہ مری بگڑی بنائے کوئی
دے دیا دل تو بھلا شرم رہی کیا باقی
ہم تو جائیں گے بلائے نہ بلائے کوئی
قرب اس کا نہیں پاتا نہیں پاتا محمودؔ
نفس کو خاک میں جب تک نہ ملائے کوئی
اخبار الفضل جلد 10 ۔4جنوری 1923ء

اپنا تبصرہ بھیجیں