74۔ ہوتا تھا کبھی میں بھی کسی آنکھ کا تارا

کلام
محمود صفحہ124۔125

74۔ ہوتا تھا کبھی میں بھی کسی آنکھ کا
تارا

ہوتا تھا کبھی میں بھی کسی آنکھ کا
تارا
بتلاتے تھے اک قیمتی دل کا مجھے پارہ
دنیا کی نگہ پڑتی تھی جن ماہ وشوں پر
وہ بھی مجھے رکھتے تھے دل وجان سے پیارا
ہوجاتی تھی موجود ہر اک نعمتِ دنیا
بس چاہیے ہوتا تھا مِراا یک اشارہ
محبوبوں کا محبوب تھا دلداروں کا دلدار
معشوقوں کا معشوق دلاروں کا دلارا
تھوڑی سی بھی تکلیف مری ان پہ گراں
تھی
کرتے نہ تھے اک کانٹے کا چبھنا بھی
گوارا
یا آج مرے حال پہ روتا ہے فلک بھی
سورج کا جگر بھی ہے غم ورنج سے پارا
یا غیر بھی آکرمری کرتے تھے خوشامد
یا اپنوں نےبھی ذہن سے اپنے ہے اتارا
یا میری ہنسی بھی تھی عبادت میں ہی  داخل
یا زہد وتعبد میں بھی پاتا ہوں خسارا
یا کند چھری ہاتھ میں دیتا تھا نہ کوئی
یا زخموں سے اب جسم مرا چور ہے سارا
یا زانوئے دلدار مرا تکیہ تھا یا اب
سررکھنے کو ملتا نہیں پتھر کا سہارا
جو گھنٹوں محبت سے کیا کرتے تھے باتیں
اب سامنے آنے سے بھی کرتے ہیں کنارہ
جس پر مجھے امید تھی شافع مرا ہوگا
اس ساعتِ عسرت میں ہے اس نے بھی بسارا
ہے صبر جو جاں سوز تو فریاد حیا سوز
بے تاب خموشی ہے نہ گویائی کاچارہ
قوت تو مجھے چھوڑ چکی ہی تھی کب کی
اب صبر بھی کیا جانے کدھر کو ہے سدھارا
اب نکلوں تو کس طرح ان آفات سے نکلوں
یہ ایسا سمندر ہے نہیں جس کا کنارہ
سالک تھا اسی فکروغم ورنج میں ڈوبا
ناگاہ اسے ہاتفِ غیبی نے پکارا
اے صیدِ مصائب نگہ یار کے کشتے
جس نے تجھے مارا ہے وہی ہے ترا چارہ
تکلیف میں ہوتا نہیں کوئی بھی کسی کا
احباب بھی کرجاتے ہیں اس وقت کنارہ
مرنا ہے تو اس در پہ ہی مر، جی تو وہیں
جی
ہوگا وہیں ہوگا ترے درد کا چارہ
مانا کہ ترے پاس نہیں دولتِ اعمال
مانا ترا دنیا میں نہیں کوئی سہارا
پر صورتِ احوال انہیں جا کے بتا تُو
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدارا
اخبار الفضل جلد 13 ۔ 9جولائی 1925ء

اپنا تبصرہ بھیجیں