175۔ ارے مسلم طبیعت تیری کیسی لا ابالی ہے

کلام
محمود صفحہ240۔241

175۔ ارے
مسلم طبیعت تیری کیسی لا ابالی ہے

ارے
مسلم طبیعت تیری کیسی لا ابالی ہے
ترے
اعمال دنیا سے جدا فطرت نرالی ہے
خدا
کو دیکھ کر بھی تو کبھی خاموش رہتا ہے
کبھی
اس زشت رو کو دیکھ کر اے واہ کہتا ہے
کبھی
اس چشمۂ صافی کے ہمسائے میں بستا ہے
کبھی
اک قطرۂ آب مقطر کو ترستا ہے
کبھی
خروار غلّے کے اٹھا کر پھینک دیتا ہے
کبھی
چیونٹی کے ہاتھوں سے بھی دانہ چھین لیتا ہے
کبھی
آفاتِ ارضی و سماوی سے ہے ٹکراتا
کبھی
لُو بھی جو لگ جائے تو تیرا منہ ہے مرجھاتا
کبھی
کہتا ہے تو اللہ کو کس نے بنایا ہے ؟
کبھی
کہتا ہے رازِ خلقِ دنیا کس نے پایا ہے ؟
کبھی
اللہ کی قدرت کا بھی انکار ہے تجھ کو
کبھی
انسان کی رفعت پہ بھی اصرار ہے تجھ کو
کمالِ
ذات انسانی پہ سو سو ناز کرتا ہے
کبھی
شانِ خداوندی پہ سو سو حرف دھرتا ہے
جو
راحت ہو تو منہ راحت رساں سے موڑ لیتا ہے
مصیبت
ہو تو اس کے در پہ سر تک پھوڑ لیتا ہے
جہانِ
فلسفہ کی علتوں کو چارہ گر ہے تو
مگر
جو آنکھ کے آگے ہے اس سے بے خبر ہے تو
تو
مشرق کی بھی کہتا ہے تو مغرب کی بھی کہتا ہے
مگر
راز درون خانہ پوشیدہ ہی رہتا ہے
سرود
سازو رقص و جامِ انگوری و مے خواری
پھر
اس کے ساتھ تکبیریں بھی ہیں کیسی ہے خودداری؟
اگر
چاہے تو بندے کو خدا سے بھی بڑھادے تو
اگر
چاہے تو کروبی کو دوزخ میں گرادے تو
غلامی
روس کی ہو یا غلامی مغربیت کی
کوئی
بھی نام رکھ لے تو وہ ہے زنجیر لعنت کی
تو
آزادی کا ٹھپہ کیوں غلامی پر لگاتا ہے
غلافِ
فَو ضَوِیَّت لے کے قرآں پر چڑھاتا ہے
یہ
کھیل اضداد کی عرصہ سے تیرے گھر میں جاری ہے
کبھی
ہے مارکس کا چرچا کبھی درسِ بخاری ہے
مسلمانی
ہے پر اسلام سےنا آشنائی ہے
نہیں
ایمان کسبی ، باپ دادوں کی کمائی ہے
کبھی
نعروں پہ تو قرباں کبھی گفتار پر قرباں
مرے
بھولے صنم میں اس ترے کردار پر قرباں
اخبار المصلح جلد 6۔ 25ستمبر1953ء۔ کراچی۔ پاکستان

اپنا تبصرہ بھیجیں