273۔ آنکھیں لے کر نکلے تھے آئینوں کے دلدادہ لوگ

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ403۔404

273۔ آنکھیں
لے کر نکلے تھے آئینوں کے دلدادہ لوگ

آنکھیں
لے کر نکلے تھے آئینوں کے دلدادہ لوگ
اب
تک گھوم رہے ہیں قریہ قریہ، جادہ جادہ لوگ
کل
تک مرنے کے شائق تھے بھولے بھالے سادہ لوگ
ایک
ذرا سی بات پہ ہیں اب جینے پر آمادہ لوگ
دھلےدھلائے،
سیدھےسادے، اجلے، صاف، کشادہ لوگ
اتنے
ہی نایاب لگیں ہیں جتنے بھی ہوں زیادہ لوگ
بات
بات پر ٹوکنے والے بوڑھے نیک ارادہ لوگ
پوتوں
سے بھی بڑھ کر بے آواز ہوئے ہیں دادا لوگ
کیا
جانیں لفظوں کا بھاؤ، کیا بوجھیں لہجوں کے دام
تم
شہری آواز کے تاجر، ہم دیہاتی سادہ لوگ
تم
اک دوجے کی دیواریں اونچی کرتے رہتے ہو
ہم
سے خواب میں آ کر مل جاتے ہیں دور افتادہ لوگ
رہ
چلتوں کو تکتے تکتے بالآخر یہ ہوتا ہے
پتھر
بن کر رہ جاتے ہیں راہوں میں ایستادہ٭؎ لوگ
پلکوں
سے تعمیر کیے تھے جن لوگوں نے تاج محل
اے
تختِ طاؤس! بتا وہ کہاں گئے شہزادہ لوگ
اس
سردی میں چلتے پھرتے رہنا ایک عبادت ہے
گرتے
پڑتے منزل پا لیتے ہیں پیرپیادہ لوگ
عہدِ
غمِ فراق میں مضطرؔ! آنا جانا چھوٹ گیا
اب
فٹ پاتھ پہ باہم مل لیتے ہیں بلاارادہ لوگ
٭۔۔۔۔۔۔
اِستادہ پڑھا جائے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں