2۔ قصیدہ در شان حضرت امام الزماں مسیح موعود ومہدئ دوراں

 

کلامِ مختار ؔ

2۔ قصیدہ  در شان حضرت امام الزماں مسیح موعود ومہدئ دوراں

 

حضرت حافظ صاحب نے یہ قصیدہ اپنے پیرو مرشدحضرت اقدس بانئ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی شان میں رقم فرمایا۔جو حضرت مولاناسید محمد احسن صاحب امروہی کے رسالہ مسک العارف کے آخری حصہ میں شائع ہوا۔بعد ازاں "مدیر الحکم”حضرت یعقوب علی عرفانی نے اسے 27مارچ1898ءکے الحکم میں پانچویں پرچہ کے صفحۂ اول  پر شائع کیا۔

(اس قصیدہ کے پہلے 18اشعار 27مارچ1898ء کے الحکم کے صفحۂاول پر  چھپے ہیں اوربقیہ38اشعار 7اپریل1898ء کے الحکم کے صفحہ 4پر )

 

 

اے چشمۂ جودوکرم،بحرفیوضات اتم

عالی ہمم والاحشم،محبوب رب ذوالکرم

 

اے مصدرِ لطف وعطا، اے معدنِ جودوسخا

اے منبعِ مہرووفا،اے مخزنِ فیضِ اتم

 

اے حامیِ دینِ متیں،اے خادمِ شرعِ مبین

اے عالمِ علمِ یقیں،اے عاشقِ شاہِ امم

 

اے چارۂ بیچارگاں ، اے رہنمائے گمرہاں

اے مرہمِ آزارِ جان،اے مظہرِلطف وکرم

 

اے مظہرِ شان خدا،محبوب خاصانِ خدا

پابندِ فرمانِ خدا،سرتابہ پالطف وکرم

 

اے ہادئِ باعزوشاں،اے مہدئِ آخر زماں

اے باعثِ آرامِ جاں،اے دافعِ رنج والم

 

اے موردِ انعامِ حق،اے باعثِ اکرامِ حق

اے مہبطِ الہامِ حق،اے ذی حشم اے محترم

 

اے مہد ئِ عالی ہمم،اے ہاد ئِ والا حشم

اے عیسٰئِ فرخ شیم، اے راہبر راہِ ارم

 

اے عشق تُو ایمانِ من، اے الفت تُو جانِ من

اے دردتُو درمانِ من،اکنون بمطلب آمدم

 

تُو ہے ہمارا پیشوا،تُو ہے ہمارا رہنما

تُو ہے ہمارا مقتدا،اک چاکرِ کمتر ہیں ہم

 

گورنج وغم سہتے ہیں ہم،مشقِ ستم رہتے ہیں ہم

لیکن یہی کہتے ہیں ہم،تجھ پرفدا ہوجائیں  ہم

 

ہوتے ہیں ظلم ناروا،لیکن ہمیں پروا ہے کیا

جب تیرے آگے کردیا،ہم نے سرِ تسلیم خم

 

ہم سب کو ہےاے نیک خُو،تیرے لقا کی آرزو

کرتے ہیں تیری گفتگو،لحظہ بہ لحظہ دمبدم

 

جو عالمانِ باخدا،رکھتے ہیں علمِ باصفاء

دل تجھ پہ کرتے ہیں فدا،پیتے ہیں دھو دھو کر قدم

 

باقی ہیں جو ناآشنا،وہ تجھ کو کہتے ہیں برا

تیرے غلام اے پیشوا،کہتے ہیں اُن سے دمبدم

 

دیکھوتم اے اہلِ ریا،دیکھو تم اے اہلِ جفاء

دیکھو تم اے اہلِ دغا،دیکھو تم اے اہلِ ستم

 

وہ پہلوان باخدا،وہ شہسوارِباصفاء

تم سب کو ہے للکارتا،آجاؤ سب ہو کربہم

 

دکھلا کے فرمانِ خدایا قولِ شاہ ِانبیاء

ثابت کرو یہ مسئلہ،اے بانئ جوروستم

 

یعنی مسیحِ ناصری،اللہ کے پیارے نبی

باایں حیاتِ دنیوی،ہیں ساکنِ چرخِ دوم

 

بے وجہ اے اہلِ ریا،کرتے ہو تم جوروجفا

کیوں دور تم نے کردیا،خوفِ خدائے اکبرم

 

ہیں حضرتِ عیسیٰ ؑکہاں،جو واپس آئیں گے یہاں

ہے بے سروپا یہ گماں،خلّاق ِ عالم کی قسم

 

خالق نے فرمایا نہیں،قرآن میں آیا نہیں

حضرت نے فرمایا نہیں،پھر مان لیں کس طرح ہم

 

قرآن نے کیا کچھ دور ہے،دیکھے جسےمنظور ہے

جینے کا کچھ مذکور ہےیا فوت ہونا ہے رقم

 

علامۂ شیخ علی1،لکھیں وفات عیسوی

لیکن نہ مانیں مولوی،تو کیا کریں عاجز ہیں ہم

 

لوگو کروخالق کا ڈر،پھولو نہ اپنے علم پر

کہتے ہیں کیا اہلِ نظر،دیکھو اسے ہو کر بہم

 

مالک 2نے فرمایا ہے کیا،کیا ابنِ قیم3 نے لکھا

کیا ہے محمد4 نے کہا،کیا کہتے ہیں ابنِ حزم

 

فرزندِ5 عمِ مصطفیٰ،ارشاد فرماتے ہیں کیا

دیکھو جسے ہو شک ذرا،کیا ہے بخاری میں رقم

 

قولِ جنابِ عائشہ،طبرانی میں ہے یوں  لکھا

یعنی مسیحِ باصفا،راہی ہوئے سوئے عدم

 

ان سب کا ہے یہ قول جب،لازم ہے پھر انکار کب

کیا کرتے ہو لوگو غضب،یہ کرتے ہو تم کیا ستم

 

باز آؤ ان عادات سے،ناخوش نہ ہو اس بات سے

ثابت ہے 30تیس آیات سے،موتِ مسیح ِ ذی حشم

 

جب ہے یہ فرمانِ خدا،جب ہے یہ قولِ مصطفیٰ

پھر ماننے میں عذر کیا،کرودوسرِ تسلیم خم

 

باز آؤظلم و جور سے،کیا فائدہ اس طور سے

دیکھو نگاہ ِغور سے،حالِ غلامِ احمدم

 

قولِ شہہ جن و بشر، صادق ہیں اس پر سربسر

انصاف سے دیکھو اگر،پاؤ نہ مطلق بیش وکم

 

شمس وقمر کا واقعہ،تھا جو کہ قول مصطفیٰ

وہ بھی تو پورا ہوگیا،پھر کس طرح مانیں نہ ہم

 

میدان میں وہ شیرِ نر،تنہا کھڑا ہے بےخطر

آجائے جو خم ٹھونک کر،ہے کون ایسا تازہ دم

 

عیسائی ہوں یا آریا،یا نیچری یا دہریا

یااور اس کے ماسوا،برہمو ہو ں یا ہندودھرم

 

المختصرکل اشقیاء،اس کے مقابل آئیں کیا

بے جان سب کو کردیا،حجت نے اس کی یک قلم

 

وہ حامئ اسلام ہے،اس کا یہی اک کام ہے

مصروف صبح و شام ہے،اس کام میں وہ ذی حشم

 

وہ عزوجاہ قوم ہے،وہ بادشاہِ قوم ہے

وہ خیر خواہِ قوم ہے،قوم اس پہ کرتی ہے ستم

 

اے قوم اب بہرِ خدا،تو اپنی ضد سے باز آ

کر اپنی حالت پر ذراتو آپ ہی لطف وکرم

 

اے امّتِ شاہ ِ عرب،کافر دیا کس کو لقب

یہ کیا کیا تونے غضب،یہ کیا کیا تو نے ستم

 

وہ مہدئ مسعود ہے،وہ عیسٰئِ موعود ہے

اس کا عدو مردود ہے،نزد خدائے اکبرم

 

ہاں ہے وہ منظورِ خدا،ہاں ہے وہ مامورِ خدا

ہاں ہے وہ پرنورِ خدا،لاریب سلطان القلم

 

عالم میں اس کی خوبیاں،ہیں جلوہ گرخورشید ساں

معروف ہے اس کی زباں،مشہور ہے اس کا قلم

 

کیا لب ہیں کیا تقریر ہے،کیا بات ہے کیا تاثیر ہے

کیا ہاتھ کیا تحریرہے،پُرزور ہے کتنا قلم

 

اس کے مقابل ذی ادب،کب کھولتے ہیں اپنے لب

جملہ فصیحانِ عرب،خاموش ہیں مثلِ عجم

 

وہ شاہسوار نامور،مائل اگر ہو جنگ پر

بھاگیں عدوئے بد گہر،ٹھہریں نہ ہر گز ایکدم

 

ترساں ہیں جمع دشمناں ،لرزاں ہے انبوہ گراں

ہے اسکی کلک دوزباں،گویا کہ شمشیرِ دودم

 

جو عزتِ دیں اس نے کی،جو عظمتِ دیں اس نے کی

جو خدمتِ دیں اس نے کی،عاجز ہے لکھنے سے قلم

 

یہ آسمانِ پیر اگر،بے مشعلِ شمس و قمر

چکر لگائے دربدر،گاہے عرب ،گاہے عجم

 

لیکن اِسے کوئی بشر،اِس کا نظیر آئے نظر

ہے غیر ممکن سربسر،ایمان سے کہتے ہیں ہم

 

پھر اُس کی توصیف وثنا کیاکرسکے کوئی ادا

اے دل تو اب یہ کر دعا،آمین کہتے جائیں ہم

 

اے خالق ارض و سماء،اے مالک ِ ہر دوسرا

دے تو انہیں فہم و ذکاء،تا مان لیں اہلِ ستم

 

آپس کے جھگڑے دور ہوں،مل جل کے سب مسرور ہوں

بغض و حسد مفرور ہوں،مفقود ہوں رنج والم

 

دجال بد اطور پر،عیسیٰ کو دے فتح و ظفر

خدام کے دل شاد کر،اے ذوالجلال و ذوالکرم

 

کر ختم اب یہ داستاں،کیا تو ہے کیا تیرا بیاں

مختار روک اپنی زباں،مختار تھام اپنا قلم6

 

1۔علی بن احمد دیکھو سراج منیر

2۔دیکھو مجمع بحار الانوارجلد اول

3۔مدارج السالکین ملاحظہ کریں

4۔(محمد بن اسماعیل)صحیح بخاری شریف دیکھئے۔کتاب التفسیر

5۔صحیح بخاری شریف زیر آیت

6.منقول از رسالہ مسک العارف صفحہ 62-64 مصنفہ محمد احسن صاحب امروہوی

 

(حیات حضرت مختار صفحہ 239-245)

 

حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ

اپنا تبصرہ بھیجیں