12۔ تبرکات۔ نرالا مست ہوں زاہد بھی مشتاقانہ آتا ہے

کلامِ
مختار ؔ

12۔ تبرکات۔ نرالا مست ہوں زاہد بھی مشتاقانہ آتا ہے

نرالا مست ہوں زاہد بھی
مشتاقانہ آتا ہے
کبھی چھپ چھپ کے آتا تھا
اب آزادانہ آتا ہے
کبھی ممکن نہیں گن گن کے
اک اک دانہ آتا ہے
مری قسمت کا روزینہ مجھے
روزانہ آتاہے
کوئی وحشت زدہ کیا جانے
آدابِ گلستاں کو
بجائے نغمہ ۔لب پر نعرۂ
مستا نہ آتاہے
جب آنے والے آتے ہیں تو
کھو جاتا ہوں اس دھن میں
کہ دیوانے سے ملنے کیا
کوئی فرزانہ آتاہے
دل اُس در پرجو مچلا ہے تو
اے مونس مچلنے دے
کہ دھن میں ہو تو قابو میں
کہاں دیوانہ آتا ہے
خد کے گھر بھی کوئی بے بلا
ئے جا نہیں سکتا
وہی جاتا ہے جس کے نام کا
پروانہ آتاہے
وہ رازِ دل بہر حالت جسے
دل میں ہی رہنا تھا
قیامت ہے کہ لب پر آج
مجبورانہ آتا ہے
زمانہ کروٹیں رہ رہ کے لیتا
ہے تو لینے دو
مجھے انداز مایوساں نہ آئے
گا نہ آتا ہے
سمجھ میں آگیا ذرے کا رشکِ
مہر ہوجانا
کہ اس لب پر بھی اب
ذکرِدلِ دیوانہ آتا ہے
خیال اچھا ارادہ نیک نیت
نیک ترلیکن
حرم کے جانے والو راہ میں
بت خانہ آتا ہے
دل وارفتہ اپنی دھن سے باز
آجائے ناممکن
جدھر آتا ہے آندھی کی طرح
دیوانہ آتا ہے
مسافر خانۂ عالم بھی اک مے
خانہ ہے گویا
یہاں لبریز ہونے ہی کو ہر
پیمانہ آتا ہے
یہ کھو جاتا ہوں خود اپنا
پتہ پہروں نہیں ملتا
مجھے جب یاد اک بھولا ہوا
افسانہ آتا ہے
سنا دیتا ہے ساری سرگزشت شمع
وپروانہ
جب اڑ کر سامنے کوئی پر پروانہ
آتا ہے
کسی کے مست ٹوٹے بوریے پر
وجد کرتے ہیں
کہاں اُن کو خیال مسندِ
شاہانہ آتا ہے
زیارت گاہ بن بیٹھا ہے اُن
کا دیکھنے والا
کہ اک عالم کا عالم روز مشتاقا
نہ آتا ہے
نگاۂِ دوربیں میں ہیچ ہے
ہنگامۂ عالم
جدھر جاتا ہوں استقبال کو
ویرانہ آتا ہے
یہی اندازِ عالم ہے تو
عالم کا خدا حافظ
حرم کو جا رہا ہوں سامنے
بت خانہ آتا ہے
مجھے مختاؔر اگلی صحبتیں
جب یاد آتی ہیں
تو قابو میں کہاں پہروں
دلِ دیوانہ آتا ہے
حضرت حافظ صاحب کا یہ منظوم کلام”خالد”ربوہ میں
جنوری 1960ءمیں شائع ہوچکا ہے۔
(حیات حضرت مختار صفحہ 319-321)
حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ

اپنا تبصرہ بھیجیں