23۔ نوحہ

کلامِ
مختار ؔ

23۔ نوحہ

اللہ اللہ جواں مرگ یہ ہمت
تیری
جان دینے سے بھی جھجکی نہ
طبیعت تیری
ہر طرف گریہ و زاری سے
محمد مختار
دل پھٹے جاتے ہیں سن سن کے
حکایت تیری
آہ وہ حسن کے سانچے میں
ڈھلا ہرانداز
آہ وہ خوبی ورعنائی فطرت
تیری
ۃح
آہ وہ نوک پلک ،شکل
شمائل،خوبو
آہ وہ دلکشیء شان وجاہت
تیری
وہ چمکتا ہوا چہرہ،وہ
دمکتا ہوا رنگ
وہ ملاحت سے ہم آغوش صباحت
تیری
وہ پسندیدہ خصائل، وہ دل
آویز اخلاق
ملتی جلتی ہوئی صورت سے وہ
سیر ت تیری
آہ وہ شستہ زباں،آہ وہ
شائستہ بیاں
آہ وہ چہرہ وہ سنجیدہ
طبیعت تیری
لفظ لفظ ایسا فرح بخش کہ
سبحان اللہ
فقرےفقرے سے عیاں خوبی ء
طینت تیری
دل کو بے ساختہ جوموہ لیں
ایسی باتیں
اورہراک بات سے ظاہر وہ
فراست تیری
آہ وہ لفظِ خطاب اور وہ
حسِّ آداب
آہ وہ عہد ِشباب اور وہ
طینت تیری
اپنے چھوٹوں کا لحاظ اور
بڑوں کی توقیر
جھک کے پیش آنے کی احباب
سے عادت تیری
سب سے اخلاق علیٰ قدر
مراتب تیرا
سب سے شیریں سخنی حسب
ضرورت تیری
نہ کہیں گردِ کدورت نہ
کہیں زنگِ ملال
ایک آئینۂ شفاف طبیعت تیری
جوسمائے معًا آنکھوں میں
وہ انداز ترا
گھر کرے دل میں جو فی
الفور وہ خصلت تیری
ہلکی ہلکی وہ ظرافت بھی
متانت سے عیاں
وہ سموئی ہوئی دونوں سے
ذہانت تیری
آہ وہ چین کے دن ،لطف کے
دن،عیش کے دن
آہ وہ رنگ پر آئی ہوئی
فرحت تیری
آہ وہ دل میں امنگیں ،وہ
امنگوں میں بہار
پھول کی طرح شگفتہ وہ
طبیعت تیری
آہ وہ آرزوئے شاہد رعنائے
مراد
پر لگائے ہوئے وہ شوق کے
ہمت تیری
اپنے حلقے میں لئے دل کو
ہجوم ارماں
وہ تمناؤں کے جھرمٹ میں
طبیعت تیری
گدگداتی ہوئی امید کی
لہریں دل کو
مسکراتی ہوئی ہنستی ہوئی
راحت تیری
وہ امنڈتا ہوا جوش اوروہ
بڑھتا ہوا شوق
چہلیں کرتی ہوئی چہرے سے
مسرت تیری
بس اب آنے کو ہے باغ محبت
میں بہار
یہ سناتی ہوئی بڑھ بڑھ کے
بشاشت تیری
علم برگشتگی ء بخت مگر تھا
کس کو
کیا خبر تھی کہ پلٹ جائے
گی قسمت تیری
واقفیت تھی کسے کیا ہے پسِ
پردۂ غیب
کون سمجھا تھا چھپی بیٹھی
ہے کلفت تیری
آہ طاری تھا اسی بے خبری
کا عالم
کہ یکایک متغیر ہوئی حالت
تیری
رنگ نیرنگئ آفاق الہٰی
توبہ
بن گئی شامِ الم صبح ِ
مسرت تیری
چشمِ امید تھی جن سے وہ
نظر پھیر گئے
دیکھتی رہ گئی اتری ہوئی
صورت تیری
آہ بگڑا بھی تو کس وقت
مقدر تیرا
آہ روٹھی بھی تو کس عمر
میں قسمت تیری
اپنے وعدوں کا عزیزوں نے
کیا کچھ بھی نہ پاس
لاکھ سمجھاتی بجھاتی رہی
حالت تیری
منحرف ہوگئے امید دلانے
والے
آڑےآئی نہ رعایت نہ مروت تیری
نوبہ نو تازہ بہ تازہ دئے
غم کھانے کو
یہ ہوئی جلوہ گہہ حسن میں
دعوت تیری
ولولے ہوگئے گلدستہ ءطاق
نسیاں
اڑگئی حرفِ غلط بن کے مسرت
تیری
آہ بگڑا تو نہ بننا تھا
مقدر نہ بنا
آہ پلٹی تو نہ سیدھی ہوئی
قسمت تیری
راحت دل کو نہ ملنا تھا
ذریعہ نہ ملا
نہ نکلتی تھی نہ نکلی کوئی
حسرت تیری
ہوگئے افسردہ شگفتہ نہ ہوا
دل تیرا
ہوکے پژمردہ کھلی پھر  نہ طبیعت تیری
خشک ہوکر نہ ہوا نخل تمنا
سرسبز
پانی دیتی رہی گو چشمِ
محبت تیری
اشک خوں بن کے جلا قافلۂعیش
ونشاط
رہ گئی خاک اڑاتی ہوئی
حسرت تیری
ہوتی آئی ہے قرابت کی بڑی
قدر مگر
نام کو بھی نہ ہوئی قدر
قرابت تیری
جو یگانے تھے وہ کچھ ایسے
بنے بیگانے
آہ جیسے کبھی دیکھی نہ
ہوصورت تیری
 درہم داغ محبت کی ہوئی کچھ بھی نہ قدر
یوسفستاں میں نہ کام آئی
یہ دولت تیری
توڑنے والوں نے پیمان وفا
توڑ دیا
اور منہ تکتی ہوئی رہ گئی
حسرت تیری
کھا کے یہ چوٹ ہوا شیشہ ء
دل چکنا چور
اشک بن بن کے بہی گرمئ
الفت تیری
دل کسی کا نہ پسیجا،نہ
پسیجا،افسوس
گوبھڑکتی ہی رہی آتش فرقت
تیری
کوششیں ہوگئیں
برباد،امنگیں پامال
مل گئی خاک میں سب
مہرومحبت تیری
آخرکار انہیں اتنا بھی
تعلق نہ رہا
کہ رہے یا نہ رہے جان
سلامت تیری
تجھ سے جس امر کا اقرار
تھا،انکار ہوا
آہ یہ شومی ومحرومئ قسمت
تیری
حرف انکار کا سننا تھا کہ
جو چھوٹ گیا
اڑگئے ہوش ہوا ہوگئی رنگت
تیری
ہوگئے  جمع خیالات پریشاں دل میں
بن گئی خواب فراموش سکینت
تیری
بڑھتے بڑھتے یہ بڑھی شدت
ایذائے فراق
کہ نہ قابو میں رہا دل نہ
طبیعت تیری
دن خموشی میں بسر ہونے لگا
مشکل سے
رات کٹنے لگی روروکے بدقت
تیری
جب ہوئی صبح تو آغوش میں
تھا روزِ فراق
اور تھی شام کے پیچھے شبِ
فرقت تیری
شبِ فرقت جوٹلی ہجر کا دن
تھا موجود
دن جو گذرا تو پھر آئی شبِ
فرقت تیری
آہ یہ سلسلۂ کشمکش لیل
ونہار
آہ پیہم بہ اذیت ،یہ اذیت
تیری
تاب ضبط ستم حوصلہ فرسا کب
تک
چھپ سکی تیرے چھپائے نہ
مصیبت تیری
دل کا جو حال تھا چہرے سے
عیاں ہونے لگا
آئینہ بن گئی اتری ہوئی
صورت تیری
جان لینے کو یہ آلام ہی
کیا کم تھے مگر
لے چلی ان سے بھی آگے تجھے
قسمت تیری
بخت واژوں نے وہ سامان کیا
پیش نگاہ
متحمل ہونہ سکی جس کی
طبیعت تیری
دل بنا گردشِ اوہام سے
فانوس خیال
رنگ پر رنگ بدلنے لگی نیت
تیری
سوز رنج وتعب عشق نے
بھڑکائی اک آگ
بن گئی شعلۂ جوالہ طبیعت
تیری
غم سے دل خون ہوا،خوں رگوں
میں کھولا
کھولتے خون سے گرما گئی غیرت
تیری
رنگ پر آگئی خوں گرمئ
سودائے دماغ
گھٹ گئی تاب ستم بڑھ گئی
وحشت تیری
نہ رہا ضبط غم ودرد کا
یارا نہ رہا
چھوڑ دی صبر وتحمل نے
رفاقت تیری
واہ رے درد کے شرمندۂ
درماں نہ رہا
واہ رے عزم کہ بدلی نہ
طبیعت تیری
بن گیا حسن وفا جرعہء
صہبائےفنا
دم بہ خود ہو گئی منہ  دیکھ کہ حسرت تیری
 ایک رنگ آنے لگا چہرے پہ اک جانے لگا
ہوگئی کشمکش کرب سے یہ گت
تیری
سینہ چھلنی،جگر ودل ہوئے
ٹکڑے ٹکڑے
نہ رہی حد  تصورمیں اذیت تیری 
نہ لیا ہائے طبیعت نے
سنبھالا نہ لیا
تھک گئی،تھک گئی،شل ہوگئی
قوت تیری
پڑگئی حسرت وارماں میں بلا
کی ہلچل
سحرحشر بنی شام مصیبت تیری
آرزوؤں میں ہوا شورِ قیامت
برپا
بے کسی لوٹ گئی دیکھ کے
حالت تیری
اف وہ رہ رہ کے سرخاک
تڑپنا تیرا
سانس اکھڑی ہوئی بگڑی ہوئی
رنگت تیری
کچھ تما شا تو نہ تھا خاک
پہ غلطاں ہونا
اک طرف ہو گئی منہ ڈھانپ
کے طاقت تیری
پتلیاں پھر گئیں پتھرا
گئیں آنکھیں افسوس
آخر ان سے بھی نہ دیکھی
گئی حالت تیری
موت کے دن تھے کہاں اے مرے
مرنے والے
بھیس بدلے ہوئے تھی موت کا
غیرت تیری
شہد سے بھی کہیں شیریں ہے
محبت لیکن
بن گئی زہر ترے حق میں
محبت تیری
آہ چھلکا ہے عجب رنگ سے
پیمانۂ عمر
آہ آئی ہے عجب حال میں
ساعت تیری
وہ سرشام، وہ تاریکی ء شب
کا آغاز
اف وہ تنہائی ومایوسی
وحسرت تیری
اُف وہ طغیان ہجوم غم و
حرماں اُف اُف
اُف وہ نرغے میں پریشان
طبیعت تیری
اُف وہ ماحول اداس،اُف وہ
پراگندہ حواس
آہ وہ عالم یاس،اُف وہ
اذیت تیری
اُف وہ بے تابی ء دل ،اُف
وہ پریشانی ء دل
اُف وہ نکلی ہوئی قابو سے
طبیعت تیری
دیکھتے دیکھتے وہ خونِ
تمنا ہونا
وہ نگاہوں سے ٹپکتی ہوئی
حسرت تیری
کوئی مونس سرِ بالیں،نہ
کوئی محرمِ راز
کس مپرسی کی وہ حالت ،وہ
مصیبت تیری
ہر رگ و پے میں
کشاکش،جگرودل مجروع
سانس کی آمد وشد سے وہ اذیت
تیری
آہ وہ پیاس،وہ کانٹوں سے
بھری خشک زباں
حلق سوکھا ہوا، بےتاب
طبیعت تیری
آہ وہ تاب شکن کشمکش قالب
وروح
ضعف بڑھتا ہوا،گھٹتی ہوئی
طاقت تیری
آمد آمد وہ قضا کی ،وہ
بھیانک منظر
وہ سسکتی ہوئی لاش اور وہ
رحلت تیری
شہد کیسا کہ میسر نہ ہوا
قطرۂآب
دل کےٹکڑے کیے دیتی ہے
صعوبت تیری
آہ یہ حسرت دیدار و امید
دیدار
کہ کھلی رہ گئیں آنکھیں
دمِ رحلت تیری
دارفانی میں بقا کس کو ہے
انا للہ
کل ہماری ہے اگر آج تھی
ساعت تیری
اس تصور سے تڑپ اٹھتی ہے
بیساختہ  روح
کوئی خدمت نہ ہوئی حسب
ضرورت تیری
تیرے ماں باپ،بہن بھائی جو
تجھ پر تھے فدا
کرسکے کوئی اعانت نہ حفاظت
تیری
اسی تقریب میں شامل تھے وہ
برگشتہ نصیب
جان سی چیز گئی جس کی
بدولت تیری
وہ ابھی حال طبیعت سے بھی
واقف نہ ہوئے
اور ادھر چھوڑ گئی تجھ کو
طبیعت تیری
دیر لگتی جو ذرا بھی تو وہ
ہوتے آگاہ
باعث بے خبری  بن گئی عجلت تیری
بات اتنی ہی تو تھی دیر کا
موقع کیا تھا
آگیا پیک اجل،ہوگئی رحلت
تیری
دم بہ دم رنگ بدلتا ہے
زمانہ کیاکیا
ابھی کیا تھی ،ابھی کیا
ہوگئی حالت تیری
وہ ابھی چھوڑ گئے تھے تجھے
چلتا پھرتا
اور ابھی آکے جو دیکھی تو
یہ صورت تیری
پیشِ دروازہ ترا جسم پڑا
ہے بے روح
گود میں سر کولئے بیٹھی ہے
حسرت تیری
آہ بیتی ہے جو ان پر وہی
جانیں اس کو
آہ ماں باپ کا دل اور یہ
حالت تیری
میں تو میں ہوں مرے خامے
کا جگر بھی ہے دونیم
کون حال ان کا لکھے کون
حکایت تیری
تاب تفصیل کہاں مجھ میں
خلاصہ یہ ہے
زندہ درگور انھیں کر گئی
رحلت تیری
نہ تو نالے کی کوئی نے ہے
نہ فریاد کی لے
ہے اسی ذیل میں یہ ساری
حکایت تیری
لے گیا دل میں گل داغ محبت
کیا کیا
تو لحد میں ترے سینے میں
ہے جنت تیری
چمنِ عشق میں تو ایک نرالا
گل تھا
تیز ترہوگئی مرجھانے سے
نکہت تیری
بیٹھنا تھا ترے دل کا کہ
اٹھا پردۂ راز
تیرا چھپنا،تھا کہ ظاہر
ہوئی حالت تیری
سن لیا سب نے لب گور سے
افسانۂعشق
بن گئی آئینہء حسن حکایت
تیری
حسن سلمیٰ بھی سرمنظر عام
آہی گیا
لائی جلوت میں اسے کھینچ
کے خلوت تیری
ہرطرف ذکر ہے اس کا بھی
ترے ذکر کے ساتھ
جلوۂحسن بہ آغو ش ہے شہرت
تیری
نہ کہیں قصۂ فرہاد نہ
افسانۂقیس
اب ہے دنیا کی زباں اور
حکایت تیری
یوں نہ ہونے کو ہزاروں ہیں
محبت والے
سچ تو یہ ہےکہ محبت تھی
محبت تیری
"کون ہوتا ہے حریف
مئے مردِ افگن عشق”
اب تیرا دور ہے اب آئی ہے
نوبت تیری
توتو خاموش ہے لیکن تری
باتیں گھر گھر
جابہ جاتجھ کو لئے پھرتی ہے
شہرت تیری
جان دی اور غم ِ رشک گوارا
نہ کیا
بوسے لیتی ہے تری قبر کے
غیرت تیری
چھوڑ کر اس کو کہاں
جائے،کدھر جائے غریب
تیری تربت کو لئے بیٹھی ہے
حسرت تیری
دل پکڑ لیتے ہیں جب دیکھتے
ہیں اہل نظر
ایک عبرت کا مرقع ہے کہ
تربت تیری
تیری غیرت پہ نثار اے مرے
غیرت والے
لے گئی ملک عدم کو تجھے
غیرت تیری
جس کو پالا تھا کلیجے سے
لگا کر تونے
ڈھونڈتی پھرتی ہے تجھ کو
وہ محبت تیری
کل بنی بیٹھی تھی جو زینت
کاشانۂ دل
آج سر پیٹتی پھرتی ہے وہ
الفت تیری
تیرے حالات جو سنتا ہے وہ
سردھنتا ہے
ڈال دیتی ہے مصیبت میں
مصیبت تیری
دل سے آہی نہ سکی آرزوئے
دل لب تک
بن گئی حلق کا دربان متانت
تیری
جل بجھے سوزدروں سے جگر
ودل دونوں
اُف نہ کی تونے یہ خودداری
وہمت تیری
مرمٹا راز محبت مگر افشا
نہ کیا
میرے جاں باز یہ غیرت یہ
مروت تیری
جان پر بیت گئی وا لب شکوہ
نہ ہوا
دیکھ لی دیکھنے والوں نےشرافت
تیری
دل اسے دیکھ کے ہوجاتے ہیں
دنیا سے اداس
ڈھیر ہے تیری تمناؤں کا
تربت تیری
اب ترا دل ہے،نہ وہ ولولہ
ء دل ہے نہ تو
رہ گئی صرف حکایت ہی حکایت
تیری
قول مشہور جو تھا شادی وغم
ہیں توام
شرح تازہ ہے اسی کی یہ
حکایت تیری

 


اُس طرف طنطنہ وشوکت و
فرسربہ فلک
اِس طرف خاک بسر خدمت و
منت تیری
اُس طرف گلشن عیش اور ہوا
خواہ اُس کے
اِس طرف عزم ترا اور طبیعت
تیری
اُس طرف تیغ بکف حوصلۂ
جوروجفا
اِس طرف خون میں ڈوبی ہوئی
حسرت تیری
اُس طرف سلسلۂ مشق ستم
روزافزوں
اِس طرف سینہ سپر خوئے
اطاعت تیری
اُس طرف محفل شادی کے
مسلسل ساماں
اِس طرف رنج و پریشانی
وزحمت تیری
اُس طرف زیر لب امواج تبسم
رقصاں
اِس طرف اشک فشاں چشم محبت
تیری
اُس طرف زینت و زیبائش ِ
سقف ودروبام
اِس طرف  رنج سے بگڑی ہوئی حالت تیری
اُس طرف فرط مسرت سے شگفتہ
چہرے
اِس طرف جوش میں آئی ہوئی
وحشت تیری
اُس طرف زینتِ ساماں طرب
روح افزا
اِس طرف زیست سے بیزار
طبیعت تیری
اُس طرف اور ہی دھن اورہی
رنگ اور ہی ڈھنگ
اِس طرف اور ہی شکل اور ہی
صورت تیری
اُس طرف شام کو یہ دھوم کہ
کل رخصت
اِس طرف آہ اُسی رات میں
رحلت تیری
اُس طرف شاہد مقصود سے دل
دست بغل
اِس طرف لاش سے لپٹی ہوئی
غیرت تیری
اُس طرف شان جہیز اِس طرف
آن تجہیز
اِس طرف اور،اُدھر
اور،حکایت تیری
اُس طرف گھی کے چراغوں کا
چمکنا سربزم
اِس طرف زیر زمیں چاند سی
صورت تیری
اُس طرف زیور وساماں کی
نمائش بہ نشاط
اِ س طرف تجھ کو سمیٹے
ہوئے غربت تیری
اِس طرف تار کفن بھی ابھی
میلا نہ ہوا
اُدھر افسوس لٹادی گئی
دولت تیری
پیش آیا وہی لکھا تھا جو
پیشانی میں
کام آئی کوئی خدمت نہ
اطاعت تیری
کھا گیا غم تجھے جس کا وہ
رہے شاد سدا
اُس سے ممکن ہی نہ تھی
کوئی اعانت تیری
اب وہ پہنا کرے جامہ جو ہو
بیدار نصیب
سوگئی چادر غم اوڑھ کے
قسمت تیری
غلبۂ درد میں بے ساختہ
آہیں تھیں یہ چند
اور آخر میں ہے تجھ سے یہ
شکایت تیری
کیا سمجھ کر مرے نادان لٹا
دی تونے
جان تو ایک امانت تھی،نہ
دولت تیری
التجا ہے کہ خداوند تعالیٰ
بخشے
یہ خطا تیری ہوئی جس سے
ہلاکت تیری
نوحہ گر بھی ترا غم خوار
بھی ہوں میں مختار
باوجود اس کے کہ دیکھی نہیں صورت تیری
(حیات حضرت مختار صفحہ327-333)
حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ

اپنا تبصرہ بھیجیں