8۔ چہرہ ایسا شمع جیسے انجمن پہنے ہوئے

یہ
زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ27۔28

چہرہ ایسا شمع جیسے انجمن پہنے ہوئے

چہرہ ایسا شمع جیسے انجمن پہنے ہوئے
جسم ایسا جیسے آئینہ بدن پہنے ہوئے
عرش سے تا فرش اک نظّارہ و آواز تھا
جب وہ اُترا جامۂ نورِ سخن پہنے ہوئے
رات بھر پگھلا دعا میں اشک اشک اس کا
وجود
تب کہیں یہ صبح نکلی ہے چمن پہنے ہوئے
اس حجابِ وصل میں اٹھتے ہیں پردے ذات
کے
جسم ہوں بے پیرہن بھی پیرہن پہنے ہوئے
اُن کی خوشبو اب وطن کی خاک سے آنے
لگی
وہ جو زنداں میں ہیں زنجیرِ وطن پہنے
ہوئے
اُٹھ گیا گھبرا کے اور پھر رو پڑا بے
اختیار
میں نے دیکھا جب وطن اپنا کفن پہنے
ہوئے
گر کرم تم بھی نہ فرماؤ تو پھر دیکھے
یہ کون
آئینے ٹوٹے ہوئے گردِ محن پہنے ہوئے
1994
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں