20۔ اب نہ خواہش سے نہ تدبیر سے ہو جو کچھ ہو

یہ
زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ51۔52

20۔ اب نہ خواہش سے نہ تدبیر سے ہو جو کچھ
ہو

اب نہ خواہش سے نہ تدبیر سے ہو جو کچھ
ہو
بس ترے پیار کی تقدیر سے ہو جو کچھ
ہو
دل کے ہر رنگ میں اک عالمِ حیرت دیکھوں
آنکھ میری تری تصویر سے ہو جو کچھ
ہو
پھول سے جس طرح پیمانِ ہوا ہے ایسے
نطق میرا تری تقریر سےہو جو کچھ ہو
کس کو معلوم ہے کس خواب کی تعبیر ہے
کیا
خواب میرا  تری تعبیر سے ہو جو کچھ ہو
ورنہ یہ لفظ فقط لفظ ہی رہ جاتے ہیں
چاہیے جذبہ و تاثیر سے ہو جو کچھ ہو
ہم بھی لکھتے ہیں مگر دل میں دعا رکھتے
ہیں
اے مسیحا تری تحریر سے ہو جو کچھ ہو
کوئی مانے بھی تو کیا اور نہ مانے بھی
تو کیا
نام میرا  تری توقیر سے ہو جو کچھ ہو
میں یہ کہتا ہوں محبت سے کرو جو بھی
کرو
وہ یہ کہتے ہیں کہ شمشیر سے ہو جو کچھ
ہو
ربط اک میرؔ سے ہر میرؔ کا رہتا ہے
علیمؔ
تم اسی سلسلۂ میرؔ سے ہو جو کچھ ہو
1994۔1995
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں