22۔ کل بھی ہم کم کم سہی ملتے تو تھے

یہ
زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ55۔56

22۔ کل بھی ہم کم کم سہی ملتے تو تھے

کل بھی ہم کم کم سہی ملتے تو تھے
جیسے وہ موسم سہی ملتے تو تھے
خواب جیسی صبح کے آغوش  میں
ہم گل و شبنم سہی ملتے تو تھے
دھوپ میں دنیا کے دو سائے کہیں
دو گھڑی سہی باہم ملتے تو تھے
دکھ بھی دیتے تھے خوشی کے ساتھ ساتھ
تم نہیں وہ ہم سہی ملتے تو تھے
وہ وداع  و وصل کے عالم وہ دن
حشر کے عالم سہی ملتے  تو تھے
دین و دنیا سے الجھنے کے لئے
زلف کے وہ خم سہی ملتے تو  تھے
اک محبت کا سماں رہتا تو تھا
وہ خوشی یا غم سہی ملتے تو تھے
بے اماں جیسے ہیں اب ایسے نہ تھے
دم بہ دم ماتم سہی ملتے تو تھے
1995ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں