31۔ وہ زمیں غالب ؔ کی لکھوں جس میں ہے تکرارِ دوست

یہ
زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ73۔74

31۔ وہ زمیں غالب ؔ کی لکھوں جس میں ہے
تکرارِ دوست

وہ زمیں غالب ؔ کی لکھوں جس میں ہے
تکرارِ دوست
میں بھی کھینچوں قامتِ جاناں یہ ہے
اصرارِ دوست
دیکھ کر قدِ قیامت سوچ کر زُلفِ دراز
اپنی ہی رفتا ر کے نشّے میں ہے رفتارِ
دوست
ہاتھ اٹھے ہوں دعا کو اس طرح اس کا
بدن
قتلِ عاشق کو بہت ہے قامتِ تلوار
دوست
ہائے وہ کاجل بھری آنکھیں وہ ان کا
دیکھنا
ہائے وہ نورِ حیا سے آتشیں رخسارِ دوست
جیسے ہم آغوشیٔ جاں کے زمانے ہوں قریب
ان دنوں ایسے نظر آتے ہیں کچھ آثارِ
دوست
اِک محبت سے محبت ہی جنم لیتی رہی
ہم نے اس کو یار جاناجس کو دیکھا یارِ
دوست
روح وتن نے ہر نفس اِک آنکھ چاہی تب
کھلا
دیکھنا آساں ہے مشکل ہے بہت دیدارِ
دوست
سب سخن کے جام بھرتے ہیں اسی سرکار
سے
جس پہ اب جتنا کھلے میخانۂ  گفتارِ دوست
بس یونہی موجیں بھریں یہ طائرانِ خدّوخال
بس یونہی دیکھا کریں ہم گلشنِ گلزارِ
دوست
1996ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں