36۔ شکستہ حال سا بے آسرا سا لگتا ہے

یہ
زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ83۔85

36۔
شکستہ حال سا بے آسرا سا لگتا
ہے

شکستہ حال سا بے آسرا سا لگتا ہے
یہ شہر دل سے زیادہ دکھا سا لگتا ہے
ہر اک کے ساتھ کوئی واقعہ سا لگتا ہے
جسے بھی دیکھو وہ کھویا ہوا سا لگتا
ہے
زمیں ہے سو وہ اپنی ہی گردشوں میں کہیں
جو چاند ہے سو وہ ٹوٹا ہؤا سا لگتا
ہے
مرے وطن پہ اترتے ہوئے اندھیروں کو
جو تم کہو، مجھے قہرِ خدا سا لگتا ہے
جو شام آئی تو پھر شام کا لگا دربار
جو دن ہؤا تو وہ دن کربلا سا لگتا ہے
یہ رات کھا گئی ایک ایک کر کے سارے
چراغ
جو رہ گیا ہے وہ بجھتا ہوا سا لگتا
ہے
دعا کرو کہ میں اس کے لئے دعا ہو جاؤں
وہ ایک شخص جو دل کو دعا سا لگتا ہے
تو دل میں بجھنے سی لگتی ہے کائنات
تمام
کبھی کبھی جو مجھے تُو بُجھا سا لگتا
ہے
جو آ رہی ہے صدا غور سے سنو اس کو
کہ اس صدا میں خدا بولتا سا لگتا ہے
ابھی خرید لیں دنیا کہاں کی مہنگی ہے
مگر ضمیر کا سودا برا سا لگتا ہے
یہ موت ہے یا کوئی آخری وصال کے بعد
عجب سکون میں سویا ہوا سا لگتا ہے
ہوائےِ رنگِ دو عالم میں جاگتی ہوئی
لَے
علیمؔ ہی کہیں نغمہ سرا سا لگتا ہے
1993ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں