46۔ تو اپنی آواز میں گم ہے میں اپنی آواز میں چپ

یہ
زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ35۔36

46۔ تو اپنی آواز میں گم ہے میں اپنی آواز
میں چپ

تو اپنی آواز میں گم ہے میں اپنی آواز
میں چپ
دونوں بیچ کھڑی ہے دنیا آئینۂ الفاظ
میں چپ
اوّل اوّل بول رہے تھے خواب بھری حیرانی
میں
پھر ہم دونوں چلے گئے پاتال سے گہرے
راز میں چپ
خواب سرائے ذات میں زندہ ایک تو صورت
ایسی ہے
جیسے کوئی دیوی بیٹھی ہو حُجرۂ رازو
نیاز میں چپ
اب کوئی چھو کے کیوں نہیں آتا اُدھر
سرے کا جیون انگ
جانتے ہیں پر کیا بتلائیں لگ گئی کیوں
پرواز میں چپ
پھر یہ کھیل تماشہ سارا کِس کے لئے
اور کیوں صاحب
جب اس کے انجام میں چُپ ہے جب اس کے
آغاز میں چپ
نیند بھری آنکھوں سے چوما دیئےنے سورج
کو اور پھر
جیسے شام کو اب نہیں جلنا کھینچ لی
اس انداز میں چپ
غیب سمے کے گیان میں پاگل کتنی تان
لگائے گا
جتنے سُر ہیں ساز سے باہر اس سے زیادہ
ساز میں چپ
1979ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں