86۔ اور سب زندگی پہ تہمت ہے

یہ
زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ117۔119

86۔ اور سب زندگی پہ تہمت ہے

اور سب زندگی پہ تہمت ہے
زندگی آپ اپنی لذت ہے
میرے اور میرے اس خدا کے بیچ
ہے اگر لفظ تو محبت ہے
اک سوال اور اک سوال کے بعد
انتہا حیرتوں کی حیرت ہے
عہد شیطان کا خدا کے ساتھ
سرکشی ہے مگر عبادت ہے
بھید جانے کوئی مگر کیسے
یار کو یار سے جو نسبت ہے
خواب میں ایک شکل تھی میرے
تُو تو اُس سے بھی خوبصورت ہے
پہلے مجھ کو تھی اور اب تیری
میری تنہائی کو ضرورت ہے
گھٹتا بڑھتا رہا میرا سایہ
ساتھ چلنے میں کتنی زحمت ہے
زندگی کو میری ضرورت تھی
زندگی اب مری ضرورت ہے
لکھنے والے ہی جان سکتے ہیں
لفظ لکھنے میں جو قیامت ہے
تھی کبھی شاعری کمال مرا
شاعری اب مری کرامت ہے
1978ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں