آئینہ

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ13۔16

 آئینہ

میرے آنگن میں گلاب کھل رہا ہے،میں
اس کا رنگ بتا سکتا ہوں مگرخوشبو کو صرف محسوس کرسکتا ہوں بتا نہیں سکتا۔مختلف
تمثیلات وتشبیہات کے سہارے ممکن ہے آپ کو اپنے احساس میں شریک کر لوں مگر حقیقتًا
خوشبو کی کیفیت اور ذائقے تک پہنچانا میرے بس میں نہیں۔
گلاب کس مٹی میں کھلتا ہے اس کے
لیے کون ساموسم اورفضا درکار ہے اس پر بہت گفتگو ہوسکتی ہے مگر اس کی خوشبو کا
تعین ممکن نہیں۔شاعری کا بھی کچھ یہی احوال ہے یہ بھی انسانی وجود کی ایک ایسی
خوشبو ہے جسے بس محسوس کیا جاسکتا ہے ۔شاعر کی زندگی وذات کے بارے میں اس کے معاشرے
اور کلچر کے بارے میں حساب لگایاجاسکتا ہے،مگر شعر کی کیفیت اور ذائقہ منتقل نہیں
کیا جاسکتااورنہ وہ محسوس کرایا جاسکتا ہےجو محسوس کیا جاتا ہے۔محسوس کرانے کا عمل
دراصل ایک دوسری تخلیق ہے جس کا پہلی تخلیق سے اتنا ہی تعلق ہے کہ وہ اس کے حوالے
سے وجود میں آئی ۔کیا میں ان باتوں سے ابلاغ کی شرط اٹھا رہا ہوں ۔قطعی نہیں۔صرف
اتنی سی بات کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جو کچھ میں نے شعر کی صورت میں لکھا ہے میرا
ابلاغ ہے اور آپ جس طرح اسے سمجھیں گے وہ آپ کا ابلاغ ہوگا۔میں نے اپنی ذات کی
اضافت سے لکھا آپ نے اپنی ذات کی اضافت سے محسوس کیا۔بہت سے لوگ اس پر مجھ سے
الجھنا چاہیں گے اوروہ بات کہیں گے جو کہی جاتی ہےمگر میں ہارنے کے لیے تیار ہوں
جھوٹ بولنے کے لیے تیار نہیں۔
تخلیق انکشاف ِذات ہے تو تنقید اُس
انکشاف کی خبر ہے۔
 تخلیق اپنے اندر ایک زبردست نمو کی طاقت رکھتی
ہے اورخودبخودبڑھتی اور پھیلتی ہے ،بالکل اسی طرح جیسے اکیلا گلاب خوشبو کا ایک
ہجوم اپنے ساتھ رکھتا ہے اور خوشبو فضاؤں میں گھلتی رہتی ہے آپ چاہیں تو اس کے
شریک ہو جائیں لیکین خوشبوآپ کی محتاج نہیں ۔گلاب کی خوشبو آپ کی نیازمند نہیں
۔مگر گلاب کا پودا فطرت کا اور آپ کا نیاز مند ہے کہ اسے اگنے کے زمین پانی اور
روشنی بہرحال چاہئیں۔
شاعری میری دانست میں انسانی وجود
کی خوش آہنگ اور مترنم بے اختیاری کانام ہے۔میں اب تک شاعری کے بارے میں اتنا ہی
جان سکا ہوں ۔ اپنی شاعری کے لیے بھی میرایہی خیال ہے۔شعر لکھنا میں نے کسی نظریے
کے سہارے شروع نہیں کیا تھا اور اب تک کوئی نظریہ نہیں تراش پایا۔ہر چند کے یہ
ہمارے شاعروں اور شاعری کی کچھ دن سے روایت ہے ۔بس میں ایک بات جانتا ہوں کہ میں
شاعر ہوں۔کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے شعر میری ذات کا ایک ایسا اذیت
ناک جبر ہے جس سے گزر کر مجھے خوشی ہوتی ہے یا میرے حواس کا وہ آئینہ ہےجو مجھے
خود اپنے جاننے کی ایک عجیب سی لذت اور سرشاری سے گزارتا ہے۔سب کچھ باہر ہے مگر وہ
نہیں ہے جو میرے اندر آکر ہو جاتا ہےجن پر آپ کو سرابوں کا گمان گزرتاہے میں نے ان
چشموں سے پانی پیا ہے جنھیں آپ فریب جانتے ہیں میں نے اُن میں منزلوں کے نشان
دیکھے ہیں۔یہاں کوئی عمل اور کوئی بات طے شدہ نہیں۔انسانی نفس کو جاننے کا دعوٰی
کون کر سکتا ہے۔بس اپنا اپنا وہم ہے اور اپنی اپنی قیاس آرائیاں۔
ان کمبخت لفظوں پر بھروسا نہ کیا
جائے تو پھر کیا کیا جائے ۔میں ان کو تسخیر کر رہا ہوں یہ میری تعمیر کر رہے
ہیں۔یہ میرے وفادار ہیں لیکن کبھی کبھی میں ان کا وفادار نہیں رہتا کہ ان کی حقیقی
صورت میں کوئی   اورصورت دیکھنا چاہتا ہوں مگران کا ظرف کشادہ ہے
یہ مجھ سے سمجھوتہ کرتے ہیں اورمیرے  نطق
سے بولتے رہتے ہیں جہاں کہیں بھی مجبوری ہے میری ہے ان میں اور مجھ میں ایک دوستانہ
جنگ بھی جاری ہے ان کی خواہش ہے کہ میں ان کی طرح بولوں مگر میں انھیں اپنی طرح
بولنے پر مجبور کرتا رہتا ہوں۔یہ میرے بچے ہیں میں ان کی اولاد ہوں مجھے دیکھنا ہے
کہ یہ جب آپ کے پاس پہنچتے ہیں تو کیا ہوجاتے ہیں۔
مجھے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا
کرنا ہے جنھوں نے حرف لکھے اورجوحرف لکھتے ہیں۔میرے آئینے میں وہ چہرے ضرور بولیں
گے جنھیں میں نے اپنا چہرہ سمجھ کر دیکھا ہے میں ان کی تکریم وتعظیم میں محض اپنا
چہرہ پیش کرسکتا ہوں اوریہ میری شاعری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں