111۔ خورشید بکف کوئی کہاں ہے

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ21۔22

111۔ خورشید بکف کوئی کہاں ہے

خورشید بکف کوئی کہاں ہے
سب اپنی ہی روشنیٔ جاں ہے
میں بھی تو ادھر ہی جا رہا ہوں
مجھ کو بھی تلاش ِ رفتگاں ہے
پھر دیکھنا خوابِ عہد رفتہ
مل لو ابھی وقت مہرباں ہے
سودا بھی کروں تو کیا کہ دنیا
باہر سے سجی ہوئی دُکاں ہے
شعلے کوخبر ہی کیا نمو میں
اپنے ہی وجود کا زیاں ہے
ہر لحظہ بدل رہی ہے دنیا
ہر پَل کوئی خوابِ رائیگاں ہے
لیتا ہی نہیں کہیں پڑاؤ
یادوں کا عجیب کارواں ہے
مانا کہ جدا نہیں ہیں ہم تم
پھر بھی کوئی فصل درمیاں ہے
اے ابرِ بہارِ نو برس بھی
پھر تازہ ہجوم تشنگاں ہے
اے موجِ فنا  گزر بھی سر سے
ہونے کا مجھے بہت گماں ہے
1965ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں