115۔ یہ اور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ29۔30

115۔ یہ اور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں

یہ اور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں
ابھی میں کیا کہ ابھی منزلِ سفر میں
ہوں
ابھی نظر نہیں ایسی کہ دور تک دیکھوں
ابھی خبر نہیں مجھ کو کہ کِس اثر میں
ہوں
پگھل رہے ہیں جہاں لوگ شعلۂ جاں سے
شریک میں بھی اسی محفلِ ہنر میں ہوں
جو چاہے سجدہ گزارے جو چاہے ٹھکرا دے
پڑا ہوا میں زمانے کی رہ گزر میں ہوں
جو سایہ ہو تو ڈرو اور دُھوپ ہو تو
جلوں
کہ ایک نخلِ نمو خاکِ نوحہ گر میں ہوں
کرن کرن کبھی خورشید بن کے نکلوں گا
ابھی چراغ کی صورت میں اپنے گھر میں
ہوں
بچھڑ گئی ہے وہ خوشبواُ جڑ گیا ہے وہ
رنگ
بس اب تو خواب سا کچھ اپنی چشمِ تر
میں ہوں
قصیدہ خواں نہیں لوگو کہ عیش کر جاتا
دُعا کہ تنگ بہت شاہ کے نگر میں ہوں
1966ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں