122۔ میں جس میں کھو گیا ہوں مرا خواب ہی تو ہے

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ43۔44

122۔ میں جس میں کھو گیا ہوں مرا خواب ہی
تو ہے

میں جس میں کھو گیا ہوں مرا خواب ہی
تو ہے
یک دو نفس نمود سہی زندگی تو ہے
جلتی ہے کتنی دیر ہواؤں میں میرے ساتھ
میرے لہو میں ایسی بھی اک روشن
ہوئی تو ہے
جس میں بھی ڈھل گئی اُسے مہتاب کر
گئی
میرے لہو میں ایسی بھی اِک روشنی
تو ہے
پر چھائیوں میں ڈوبتا دیکھوں بھی مہر
ِعمر
اور پھر بچا نہ پاؤں یہ بیچارگی تو
ہے
تُو بُوئے گل ہے اور پریشاں ہَوا ہوں
میں
دونوں میں ایک رشتہ ء آوارگی تو ہے
اے خواب خواب عمرِ گریزاں کی ساعتو
تم سن سکو تو بات میری گفتنی تو ہے
1966ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں