127۔ پا بہ زنجیر سہی زمزمہ خواں ہیں ہم لوگ

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ51۔52

127۔ پا بہ زنجیر سہی زمزمہ خواں ہیں ہم
لوگ

پا بہ زنجیر سہی زمزمہ خواں ہیں ہم
لوگ
محفلِ وقت تری روحِ رواں ہیں ہم لوگ
دوش پر بارِ شبِ غم لئے گل کے مانند
کون سمجھےکہ محبت کی زباں ہیں ہم لوگ
خوب پایا ہے صلہ تیری پرستاری کا
دیکھ اے صبحِ طرب آج کہا ں ہیں ہم لوگ
اِک متاع دل و جاں پاس تھی سو ہار چکے
ہائے یہ وقت کہ اب خود پہ گراں ہیں
ہم لوگ
نکہتِ گل کی طرح ناز سے چلنے والو
ہم بھی کہتے تھے کہ آسودۂ جاں ہیں
ہم لوگ
کوئی بتلائے کہ کیسے یہ خبر عام کریں
ڈھونڈتی ہے جسے دنیا وہ نشاں ہیں ہم
لوگ
قسمتِ شب زدگاں جاگ ہی جائے گی علیم
جرسِ قافلۂ خوش خبراں ہیں ہم لوگ
1963ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں