129۔ ہر آواز زمستانی ہے ہر جذبہ رندانی ہے

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ55۔56

129۔ ہر آواز زمستانی ہے ہر جذبہ رندانی
ہے

ہر آواز زمستانی ہے ہر جذبہ رندانی
ہے
کوچۂ یار سے دارو رسن تک ایک سی ہی
ویرانی ہے
کتنے کوہِ گراں کاٹے تب صبحِ طرب کی
دید ہوئی
اور یہ صبحِ طرب بھی یارو کہتے ہیں
بیگانی ہے
جتنے آگ کے دریا ہیں سب پار ہمیں کو
کرنا ہیں
دنیا کس کے ساتھ آئی ہے دنیا تو دیوانی
ہے
لمحہ لمحہ خواب دکھائے اور سو سو تعبیر
کرے
لذّت کم آزار  بہت ہے 
جس کا نام جوانی ہے
دل کہتا ہے وہ کچھ بھی ہو اس کی یاد
جگائے رکھ
عقل یہ کہتی ہے کہ توہم پر جینا  نادانی ہے
تیرے پیار سے پہلے کب تھا دل میں ایسا
سوز وگداز
تجھ سے پیار کیا تو ہم نے اپنی قیمت
جانی ہے
آپ بھی کیسے شہر میں آکر شاعر کہلائے
ہیں علیم
درد جہاں کم یاب بہت ہے نغموں کی ارزانی
ہے
1963ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں