131۔ ایک ایسی بھی ہوا آئے گی

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ59۔60

131۔ ایک ایسی بھی ہوا آئے گی

ایک ایسی بھی ہوا آئے گی
جو ہر اِک زخم کو بھر جائے گی
یہ کنارے سے لپٹتی ہوئی موج
کبھی طوفاں بھی اٹھا لائے گی
پھول میں ہو کہ ہوا میں خوشبو
نور ہے نور ہی برسائے گی
اور یہ  عشق و ہوس کی دنیا
تشنگی کے سوا کیا پائے گی
پھول بھی شاخ سے گر جائیں گے
شاخ بھی دھوپ سے مرجھائے گی
ہے سمٹتے ہوئے سائے کی صدا
اُٹھ یہ دیوار بھی گر جائے گی
کوئی احساس اگر ہے تو کہو
بات لفظوں سے نہ بن پائے گی
1964ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں