149۔ دکھے ہوئے ہیں ہمیں اور اب دکھاؤ مت

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ
93۔94

149۔ دکھے
ہوئے ہیں ہمیں اور اب دکھاؤ مت

دکھے ہوئے ہیں ہمیں اور اب دکھاؤ مت
جو ہوگئے ہو فسانہ تو یاد آؤ مت
خیال و خواب میں پرچھائیاں سی ناچتی
ہیں
اب اس طرح تو مری روح میں سماؤ مت
زمیں کے لوگ تو کیا دو دلوں کی چاہت
میں
خدا بھی ہو تو اُسے درمیان لاؤ مت
تمھارا سر نہیں طفلانِ رہ گزر کے لئے
دیارِ سنگ میں گھر سے نکل کے جاؤ مت
سوائے اپنے کسی کے بھی ہو نہیں سکتے
ہم اور لوگ ہیں لوگو ہمیں ستاؤ مت
ہمارے عہد میں یہ رسمِ عاشقی ٹھہری
فقیر بن کے رہو اور صدا لگاؤ مت
وہی لکھو جو لہو کی زباں سے ملتا ہے
سُخن کو پردۂ الفاظ میں چھپاؤ مت
سُپرد کر ہی دیا آتشِ ہنر کے تو پھر
تمام خاک ہی ہوجاؤ کُچھ بچاؤ مت
1965ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں