156۔ دوستو!خونِ شہیداں کا اثر تو دیکھو

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ107۔108

156۔ دوستو!خونِ
شہیداں کا اثر تو دیکھو

دوستو! خونِ شہیداں کا اثر تو دیکھو
کاسۂ سر لیے آئی ہے سحر تو دیکھو
درد کی دولتِ کمیاب مرے پاس بہت
ظرف کی داد تو دو میرا جگر تو دیکھو
منزلِ شوق گریزاں ہے گریزاں ہی سہی
راہ گم کردہ مسافر کا سفر تو دیکھو
کون بے وجہ اڑاتا ہے بہاروں کا مذاق
مجھ کو الزام نہ دو اپنی نظر تو دیکھو
چاند کا دشت بھی آباد کبھی کر لینا
پہلے دنیا کے یہ اجڑے ہوئے گھر تو دیکھو
فخر ہم پیشگئ دیدہ وراں جانے دو
داغِ ہم پیشگئ ننگ ِہنر تو دیکھو
1961ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں