162۔ خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ119۔120

162۔ خواب
ہی خواب کب تلک دیکھوں

خواب
ہی خواب کب تلک دیکھوں
کاش
تجھ کو بھی اِک جھلک دیکھوں
چاندنی
کا سماں تھا اور ہم تم
اب
ستارے پلک پلک دیکھوں
جانے
تو کس کا ہم سفر ہوگا
میں
تجھے اپنی جاں تلک دیکھوں
بند
کیوں ذات میں رہوں اپنی
موج
بن جاؤں اور چھلک دیکھوں
صبح
میں دیر ہے تو پھر اِک بار،
شب
کے رُخسار سے ڈھلک دیکھوں
اُن
کے قدموں تلے فلک اور میں
صرف
پہنائی فلک دیکھوں
1972ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں