غلام نوازیاں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ23۔39

 غلام نوازیاں

ذیل میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ
اللّٰہ تعالیٰ کے مکتوبات گرامی، جو آپؒ نے مکرم محترم چوہدری محمدعلی صاحب کے نام
تحریر فرمائے، پیش خدمت ہیں۔
لنڈن17.01.1991/
پیارے برادرم چوہدری محمد علی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
آپ کی کس کس غزل پر کیسے اپنے ہاتھ
سے لکھ لکھ کر داد دوں۔ میں تو قلم توڑے بیٹھا ہوں۔
محبت ہو گئی ہے تجھ سے مضطرؔ!
تو کس محبوب کا نوکر رہا ہے
٭٭٭
لندن22.6.1369/1990/
الفضل 3/جون1990ء کے شمارہ میں آپ کا
منظوم کلام ”اپنے اندر کی بھی سیاحت کر” پڑھا۔ بہت اعلیٰ پائے کی سہل ممتنع غزل ہے۔
آپ کا اپنا ہی رنگ ہے جو کسی اور کو اپنانے کی توفیق نہیںملی کیونکہ یہ رنگ آپ کے مزاج
کا رنگ ہے اور عموماً ایک زمانے میں ایک سے زیادہ محمدعلی پیدا نہیں ہؤا کرتے۔ چشمِ
بدور۔ اَللّٰھُمَّ زِدْ فَزِدْ وَبَارِکْ۔ اللہ آپ کی عمروصحت میں برکت دے۔ خداحافظ!
٭٭٭
29-10-90
آپ کے منفرد کلام کی تعریف میں دو حرف
ڈال دیے تو کون سی قیامت آگئی۔ آپ کی ہر غزل پر اگر ایک الگ خط لکھوں تب بھی حق ادا
نہ ہوسکے گا۔ پتہ ہے مجھے آپ کا کلام کیوں پسند ہے۔ شعراء کے کلام سے الگ اس میں ایک
اپنی سی دلکشی ہے۔ سردست امتیازی جاذبیت کی صرف تین باتیں بتا دیتا ہوں۔ پتہ تو آپ
کو ہوں گی مگر اپنے انکسار کے باعث بھلا خود کب مانیں گے۔
1۔ کھری کھری سنانی اور پتھر مارنے والوں پر پتھر
مارنے تو بہتوں کو آتے ہیں مگر شعروادب کی پنکھڑیوں میں لپیٹ کر پتھر مارنے کوئی آپ
سے سیکھے۔ پھر لطف یہ کہ پتھراؤ کا مزا بھی آتا ہے اور پنکھڑیوں کی نزاکت اور لطافت
بھی مجروح ہوئے بغیر اپنے دلکش رنگ دکھاتی ہےں۔ آپ سر اپنا پتھروں کے حضور پیش کرتے
ہیںا ور پتھراؤ مارنے والوں کے سروں پر۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔
2۔سادہ سے لفظوں میں سرِراہے بظاہر یونہی عام
سی بات کرجاتے ہیں لیکن ایک دو قدم آگے بڑھ کر پھر مڑنا پڑتا ہے۔ ایک خلش سی پیدا ہوتی
ہے کہ کوئی بات تھی جو نظر سے رہ گئی ہے۔ بات بھی پھر ایسی گہری اور پرحکمت نکلتی ہے
کہ دوقدم چھوڑ ہزاروں قدم واپس آکر بھی حاصل ہو تو جوازِسفر سے بڑھ کر نکلے۔
3۔ تیسری خاص بات یہ دیکھی ہے کہ مجال ہے جو کسی
بھیڑ میں مل جل کر اپنی شخصیت گنوا بیٹھے ہوں۔ شاہوں میں فقیرانہ گدڑی میں اور فقیروںمیں
شاہانہ لباس اوڑھے پھرتے ہیں۔ کوئی دور ہی سے دیکھ کر کہے وہ دیکھو محمدعلی کس سج دھج
سے جارہا ہے۔
ان کو کتنا مزا آتا ہوگا جو کہہ سکیں
یا کہتے ہوں گے کہ یہ میرا محمدعلی ہے۔ ایک پیارا وجود رحمہ اللہ جو بجا طور پر یہ
کہہ سکتا تھاوہ اب ہم میں نہیں ہے۔ بیسیوں ایسے ہوں گے جو یہ کہنا چاہتے ہوں گے۔
٭٭٭
لندن /1993/ہش25.2.1372
آپ کی ہرغزل ہی ماشاء اللہ آسمانِ شعر
پر ایک اَور روشن ستارہ طلوع کرتی ہے مگر بعض ستارے دوسروں سے روشن تر ہوتے ہیں۔ سادگی
کے ساتھ پُرکاری کا لفظ تو آپ پر سجتا نہیں۔ کیونکہ پُرکاری میں کچھ فریب کے معنی پائے
جاتے ہیں جبکہ نہ آپ کو پُرکاری آتی ہے نہ ادا کاری، ہاں جانکاری ضرور آپ کی غزلوں
میں دکھائی دیتی ہے۔چنانچہ 2/فروری 1992ء کے الفضل میں شائع ہونے والی آپ کی غزل ساری
ہی بڑی رواں اور اثرانگیز ہے اور یہ شعر تو کیا خوب ہے۔
گلشن کا نہ تھا قصور اس میں
موسم ہی نہیں بدل رہا تھا
آپ نے کمال کردیا ہے۔ گلشن اور موسم
کے تعلق میں ایسا مضمون پہلے کبھی نہیں سنا۔ سب نے بدلتے موسموں کی بات کی ہے ۔موسم
نہ بدلنے کا مضمون پہلی دفعہ پیش ہؤا ہے۔ یہ شعر بھی بہت عمدہ ہے۔
جنت کا شجر تھا اور اس کے
سائے میں گناہ پَل رہا تھا
درخت کے سائے بیٹھے ہوئے ہیولے دکھائی
دینے لگے۔اسی طرح یہ شعر پڑھ کر بھی بڑا لطف آیا۔ اس میں آپ نے ایک عام تجربہ کی بات
کی ہے لیکن شاید ہی کسی نے اس کو اس رنگ میں بیان کیا ہو۔
رونا تو وہ چاہتا تھا لیکن
آنسو ہی نہیں نکل رہا تھا
جس طرح بعض دفعہ صدمہ آنسوؤں میں نہیں
ڈھلتا۔ اسی طرح یہ مضمون کسی سے شعر میں نہیں ڈھل سکا۔ جو آنسو صدمہ پر نہیں نکل سکا
وہ اتنا خوبصورت شعر کا موتی بن کر نکلا ہے تو پھر آپ کو کیا شکوہ ہے۔ شعروں کے آئینہ
میں آپ سے جو ملاقات ہوتی ہے وہ بہت پرلطف ہوتی ہے۔ اسی لیے بڑے شوق سے آپ کی نظموں
کا مطالعہ کرتا ہوں اور انہیں پڑھنے کا انتظار رہتاہے۔ گزشتہ دنوں جب الفضل میں اوپر
تلے آپ کی کئی نظمیں شائع ہوئیں تو انہیں پڑھ کر بہت لطف آیا اور کئی پسندیدہ شعروں
میں قلم سے نشان لگا کر غائبانہ داد دئیے بغیر نہ رہ سکا۔ اللہ آپ کی صلاحیتوں کو مزید
نکھار عطا فرمائے اور خوشیوں سے معمور فعال لمبی زندگی عطا فرمائے۔ خداحافظ وناصر ہو۔
٭٭٭
لندن29.5.98/
آپ کی سب نظمیں ماشاء اللہ آسمانِ ادب
کی رفعتوں کو چھوتی ہیں اور ایک آپ ہیں کہ جن کا شاید ہی کوئی ایسا کلام ہو جس میں
مجھے کوئی نہ کوئی خاص بات دکھائی نہ دیتی ہو ورنہ چوٹی کے شعراء کے کلام میں سے بھی
مجھے رطب ویابس کے انبار سے اچھا کلام ڈھونڈنا پڑتاہے۔
الفضل کے 19/مئی کے شمارہ میں آپ کی
جو پنجابی نظم چھپی ہے اس کا معیار بھی بہت اعلیٰ ہے۔ پنجابی نظمیں پڑھنے میں کچھ دشواریاں
ہوتی ہیں جو بعض دفعہ یہ احساس دلاتی ہیں کہ وزن ٹوٹ گیا ہے جبکہ شاعر خود پڑھنے کے
انداز سے ہی اس سُقم کو دور کر دیا کرتے ہیں۔ اس نظم میں بھی ایسی کئی جگہیں میرے لیے
دشواری کا موجب بنی ہیں اور کچھ پنجابی محاوروں سے اپنی لاعلمی کا اعتراف بھی کرنا
پڑا مثلاً آخری سے پہلے جو شعر ہیں۔
تینوں ٹھرک مکان دا سانوں ویل زمین
تیری روزی شہر وچ تے ساڈے دانے پنڈ
اس میں یا دونوں جگہ ”تے” داخل ہونا
چاہیے کہ اس سے سلاست پیدا ہوتی ہے یا پھر دونوں جگہ سے ”تے” نکال دینی چاہیے اور
اگر پہلے مصرعہ میں ”تے” داخل نہیں کرنی تو پھر دوسرے مصرعے سے ”وچ” نکال دیں۔
عین مصرعہ کے ”وچ” جو وچ آیا ہؤا ہے وہ کچھ اوپرا سا لگ رہا ہے لیکن ممکن ہے کہ یہ
بھی انہی جگہوں میں سے ہوجن کے متعلق میں نے اپنی لاعلمی کا اظہار پہلے ہی کر دیا ہے۔
بہرحال نظم خوب کہی ہے ۔ ماشاء اللہ چشم ِ بددُور۔ اللہ آپ کے زورِ قلم کو اور بڑھائے
اور صحت وسلامتی سے رکھے۔
٭٭٭
لندن8.5.89/
الفضل کے 24/اپریل کے شمارہ میںآپ کی
نظم پڑھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو جو قدرتِ کلام عطا ہوئی ہے، اس کے چرچے
تو مدتوں پہلے کالج کے زمانے کی شعروں کی محافل سے نکل کر عام ہوگئے اور کالج کے طلباء
میں ہی نہیں بلکہ ربوہ کے دوسرے نوجوانوں میں جن کو کچھ ادبی ذوق تھا، بہت ہی ہر دلعزیز
ہوئے۔ آپ کے کلام میں انفرادیت اور اپنی خاص منفرد شخصیت کی چھاپ ہمیشہ نمایاں دکھائی
دیتی ہے۔ لیکن یہ کلام جو الفضل میں شائع ہؤا ہے، معلوم ہوتاہے کہ خاص طبیعت کی لہر
میں کہا گیا ہے اور عام کلام سے بلند قامت ہے۔ اس کلام کو دیکھ کر مجھے وہ سفر یاد
آگیا جو آپ کے ساتھ غالباً1945ء میں تبّت کی سرحد کی جانب اختیار کیا تھا۔ لائنگ پاس
سے گزر کر لاہول کی وادی میں آپ کی قیادت میںکالج کے طلباء کے ساتھ مَیں بھی شامل تھا۔
وہ علاقہ سطح مرتفع ہے جس کی بلندی کم از کم 10ہزار فٹ بلند ہے لیکن سطح مرتفع سے بھی
بلند تر پہاڑوں کی چوٹیاں نکلی ہوئی ایک عجیب رعبناک منظر پیدا کرتی تھیں۔ پس آپ کا
کلام بالعموم سطح مرتفع ہے لیکن یہ نظم اس سطح مرتفع سے بلند ہونے والی ایک چوٹی ہے۔
کس کس شعر یا مصرعے کا حوالہ دوں۔ ”جنگل میں جس طرح ہوں گوالے پڑے ہوئے” یا ”جیسے
سمندروں میں ہمالے پڑے ہوئے۔” یا پھر اچانک قافیے کا ایک چونکا دینے والا استعمال
جو اس مصرعہ میں ملتا ہے۔ ”جو غم بھی راہ میں ہوں اٹھالے پڑے ہوئے” ۔یہ مصرعے خود
اپنی ذات میں ویسا ہی منظر پیدا کررہے ہیں کیونکہ پہلا مصرعہ اگر سطح مرتفع ہے تو یہ
مصرعے اس سے نکلی ہوئی چوٹیاں ہیں۔ آپ نے تو سمندروں میں بھی ہمالے ڈال دیئے لیکن ان
سب میں جو غیر معمولی طور پر پیارا شعر ہے مجھے لگا، وہ یہ ہے کہ
اترا تھا چاند شہرِ دل و جاں میں ایک
بار
اب تک ہیں آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئے
خداتعالیٰ کے فرستادہ بندوں کی آمد
کے بعد حقیقت میں بالکل یہی منظر مدتوں دکھائی دیتا رہتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ
السلام کو آئے ہوئے ایک صدی بیت گئی لیکن آج تک ہمارے آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئے ہیں۔
ماشاء اللہ چشمِ بددور۔
اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ عمروصحت
میں برکت دے اور اس قادر الکلامی کو مزید تقویت اور جِلا بخش دے۔ عید مبارک ہو۔
٭٭٭
لندن22.6.1990/
روزنامہ الفضل کے شمارہ 3/فروری میں
آپ کی نظم ”تضمین” بہت اعلیٰ پایہ کی نظم ہے اور قابل داد ہے۔ ماشاء اللہ چشمِ بدور۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت عمدہ ملکہ عطا فرمایا ہے۔ اس نظم کا ہر شعر قابلِ ستائش ہے۔
لیکن اس شعر کا کیا کہنا۔
تاج ہم نے پہن کے کانٹوں کا
بر سرِ دار استراحت کی
اللہ تعالیٰ آپ کو صحت وسلامتی عطا
فرمائے اوراپنا عبد بنائے اور حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭
10.6.1989
آپ کا دلچسپ اور اداس خط ملا جس پر
عبدالسلام اختر مرحوم کا یہ شعر صادق آرہا تھا۔
دیکھ اُفق پر گھٹا جو ہے اس میں
کچھ اندھیرے ہیں، کچھ اجالے ہیں
جو شعر آپ نے طبع نہیں کروائے اُن میں
سے پہلے کو چھپا رکھنے کا تو کوئی جواز ہی نہیں سوائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا
ہے
”سالے” کا ایسا انوکھا اور برمحل استعمال پہلے
کبھی اردو ادب میں نہیں ہؤا۔
جن پریشانیوں کا آپ نے ذکر فرمایا ہے
وہ میرے دل کو بھی لاحق ہوگئی ہیں۔ انشاء اللہ مقدور بھر کوشش بھی کروںگا اور دعابھی۔آپ
سب کے حوصلے اور صبر پر حیرت زدہ ہوں۔ یہاں الفاظ کی دلداری کام نہیں آتی۔ دعا ہی ہے
جو مقبول ہوجائے تو اعجاز دکھاتی ہے۔ ورنہ دوا کی حد سے بھی بات بڑھی ہوئی معلوم ہوتی
ہے۔
گذشتہ خط میں یاد نہیں بطور خاص ایک
شعر کا ذکر کیا تھا یانہیں۔ اس کی چاندنی اب تک میرے دل کے آنگن پر پھیلی پڑی ہے۔ شاعری
ایسے حسن کی مایہ میں شاذ شاذ ہی دھلا کرتی ہے۔
اترا تھا چاند شہرِ دل و جاں میں ایک
بار
اب تک ہیں آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئے
٭٭٭
لندن/1993/ ہش7.5.1372
آپ کا سارا کلام ہی ماشاء اللہ ایک
خاص اپنا سا انداز رکھتاہے اور جس میں امتیازی رنگ پایا جاتا ہے لیکن آ پ کے کلام میں
بھی پھر بعض شعربعض شعروں پر سبقت لے جاتے ہیں۔2/فروری کے الفضل میں شائع ہونے والی
نظم کے حسب ذیل چار شعر تو مجھے بہت ہی پسند آئے ہیں ۔ماشاء اللہ۔ اللہ آپ کے کلام
کا حسن اور بھی بڑھائے اور اپنی جناب سے نور عطا کرے ۔آ پ کو آئینوں کا بہت شوق ہے
۔میری آنکھوں کے آئینے میں ذرا اپنے کلام کا چہرہ دیکھیں۔
گلشن کا نہ تھا قصور اس میں
موسم ہی نہیں بدل رہا تھا
اس شور زمیں میں پیڑ غم کا
جیسا بھی تھا پھول پھل رہا تھا
جنت کا شجر تھا اور اس کے
سائے میں گناہ پل رہا تھا
رونا تو وہ چاہتا تھا لیکن
آنسو ہی نہیں نکل رہا تھا
24جنوری کے الفضل میں چھپنے والی نظم کا یہ پہلا
شعر بھی بہت ہی اعلیٰ درجہ کا ہے۔
تری نظر کا اگر اعتبار کر لیتے
نظر کی بھیک بھی تجھ سے پکار کر لیتے
واہ واہ سبحان اللہ
میرے علم میں کسی نے نظر پر اعتبار
کے مضمون کو اس طرح نہیں باندھا جس طرح آپ نے باندھا ہے۔اسی نظم کے حسب ذیل شعر بھی
ماشاء اللہ بہت عمدہ ہیں اور انھیں پڑھ کر بہت محظوظ ہؤا ہوں۔
وہ راہ چلتوں سے قول و قرار کرلیتے
وفا کا عہد تو ان سے سنوار کر لیتے
(اللہ اکبر)
یہ قافلے جو کھڑے ہیں انا کی سرحد پر
کسی بہانے سے سرحد کو پار کر لیتے
نظر نہ آتے بگولے کبھی سرِ صحرا
ہوا کے رخ کو اگر اختیار کرلیتے
اللہ آپ کو صحت وعافیت والی فعّال اور
بامراد لمبی عمر عطافرمائے اور ہمیشہ اس کے پیار کی نظریں آپ پر پڑ تی رہیں۔خداحافظ
وناصرہو۔
ئئ٭٭٭
لندن /1993/ہش5.2.1372
الفضل کے 19دسمبر 1992ء اور 24جنوری1993ء
کے شمارہ میں آپ کی جو نظمیں شائع ہوئی ہیں ان میں بعض تو بہت ہی چوٹی کے اشعار ہیں۔ویسے
تو آپ کا سارا کلام ہی ایک امتیازی شان لیے ہوتاہے اور ہمیشہ دل پر گہرے نقوش چھوڑتا
ہے لیکن ان شعروں کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔پر اثر ، دل نشیںاور روح پر وجد کی سی کیفیت
پیدا کرنے والے۔ماشاء اللہ ۔چشم بد دور۔کیا خوب فرمایا ہے ؎
عہد کا کرب مکمل نہیں ہونے پاتا
یہ دھؤاں وہ ہے جو کاجل نہیں ہونے پاتا
”تری نظر کا اگر اعتبار کرلیتے” بھی بہت خوب
ہے۔ بڑی مشکل بحر میں آپ نے حیرت انگیز مضمون باندھا ہے ۔ اسی طرح ” وفا کا عہد تو
ان سے سنوار کرلیتے ” والا بھی خوب مصرع ہے۔اور اس شعر میں تو آپ نے کمال ہی کردیاہے۔
نظر نہ آتے بگولے کبھی سرِ صحرا
ہوا کے رخ کو اگر اختیار کر لیتے
ماشاء اللہ بہت ہی عمدہ مضمون ہے اور
سچ تو یہ ہے کہ ساری نظم ہی بڑی بلند پایہ ہے۔ جزاکم اللہ احسن الجزائ۔اللہ آپ کی ذہنی
وقلبی صلاحیتوں کو مزید صیقل فرمائے۔خدا حافظ وناصر ہو۔
٭٭٭
24.4.91
آپ کا دل تو درد میں ڈوبا ہؤا ہمیشہ
سے تھا ہی اب جسم بھی دردوں سے کراہنے لگا ۔
حیراں ہوں دل سنبھالوں کہ تھپکوں بدن
کو میں
صلیبِ عشق پرچڑھے ہوئے آپ کو عمر گزرگئی،
نہ پھو ل برسے نہ گڑھے پڑے۔ لیکن انسانوں کے پھول برسانے سے بنتا بھی کیا ہے ۔ میری
دعاہے کہ اللہ آپ پر اپنی رحمت کے پھول برسائے، اس دنیا میں بھی اور اس دنیا میں بھی
۔ایک غم تو نہیں جو آپ سینے سے لگائے پھرتے ہیں ۔عزیزوں نے تو اپنی اپنی صلیب اٹھارکھی
ہے۔آپ نے سب عزیزوں کی صلیبیں اٹھائی ہوئی ہیں۔پھول بھی تو اتنے ہی برسنے چاہئیں۔
آپ کاکلام دن بدن زیادہ بلند اور زیادہ
گہرا ہوتا چلا جاتاہے۔دل کے بخارات رفعتوں سے گہرے پانیوں پر پانی برساتے ہیں۔سطحی
نظر سے دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ گہرے پانی پُر سکون ہوتے ہیں۔کبھی اتر کر دیکھیں
تو دیکھیں کہ طوفان نے آفت مچا رکھی ہے۔
اللہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کرے اور سمندر
دل کو گہری سکینت سے بھر دے جو پاتال تک اتر جائے اور قرار پکڑ جائے۔
خوشا کہ تم سے ملاقات ہو گی جلسے پر
خوشا کہ آؤ گے تم……………..
سب عزیزوں کو محبت بھر اسلام۔میری اور
آپ کی عاجزانہ دعائیں انہیں ماؤں کے دودھ کی طرح لگیں۔
٭٭٭
آپ کا پنجابی کلام احمدیہ گزٹ کینیڈا
میں پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی ہے۔دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آپ کے لیے دعا اور تحسین کے
کلمات نکلے ہیں۔بہت پیارے خیالات ہیں جن کو پنجابی لفظوں میں پرو کرایک خوبصورت مالا
بنادیاہے۔جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزائ
آپ ماشاء اللہ اردو ،انگریزی اور پنجابی
میں قادر الکلام ہیں۔اپنی ان خداداد صلاحیتوں کو کاغذوں میں محفوظ کرتے چلے جائیں۔اللہ
تعالیٰ توفیق دے اورزندگی بابرکت ہو۔سب کو محبت بھرا سلام اور عید مبارک۔
٭٭٭
لنڈن6.2.92/
پیار اور خلوص کا جو تحفہ آپ قادیان
میرے لیے چھوڑ گئے تھے وہ لنڈن آکرملا، آپ نے لطف کے کوزوں میں کتنے ہی دریا بند کرکے
بھیجے ہیں جو منالی سے کُلّو تک کی سٹرک کے ساتھ ساتھ بہتے ہوئے دریائے بیاس کی یاد
تازہ کرتے ہیں۔ آپ بھولے تو نہیں ہوں گے ۔ بھول سکتے بھی نہیں۔ کروٹ کروٹ وہ نئی نئی
جنت دکھاتا تھا۔ اب بھی دکھاتا ہوگا مگر ہمیں کیا۔ قادیان میں کئی بار خیال آیا کہ
آپ ساتھ چلیں تو ایک بار پھر وہاں ہو آئیں۔ آپ کی شاعری کو ایک نیا جنم مل جائے۔ ویسے
نئے جنم کی اسے کوئی ضرورت تو نہیں ہے۔ماشاء اللہ سدابہار۔ بڑھاپے کی عقل اور جوانی
کے ولولوں کو مدغم کئے ہوئے۔ فقیری میں شاہی کرتی ہوئی۔ کبھی خاموشی کو صدا بناتی ہوئی،
کبھی صداؤں کو بے آواز کرتی ہوئی کیٹس(
Keats) کے گریشن ارن (Greecion Urn) کی تمثال دار۔ صاف گوئی میں اپنی مثال آپ۔ مبالغہ بھی کرے تو حقیقت
کا گمان گزرے۔ کواکب کی طرح بازی گر۔
میرے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا اگر اپنے
متعلق ہی سمجھ کر پڑھتا تو آپ کے شعروں کا کیا خاک لطف اٹھاتا۔ میں توغالبؔ ہی کے اس
مصرعہ میں ڈوبا رہتا:
اور میں وہ ہوں کہ گرجی میں کبھی غور
کروں
”ونڈوشاپنگ” کرتے ہوئے ان ملبوسات ہی سے لطف
اندوز ہوتا رہا جوبے جان پیکروں کو بھی زینت بخشتے ہیں۔
اسی تمنا میں جیتا اور مرتا ہوں اور
یہی آپ میرے لیے دعا کیا کریں کہ دم نکلنے سے پہلے نفخِ روح ہوجائے۔ وہ دم نکلے جو
پیش کرنے کے لائق ہو۔
٭٭٭
11.11.1989
چند ہفتے پہلے سہیل شوق صاحب کا وہ
مقالہ پڑھنے کا لطف میسر آیا جو آپ کے بارہ میں تھا۔ مختصر مگر جی لگتا تھا۔ گو تمہید
انہوں نے کچھ زیادہ ہی لمبی باندھی۔ آپ کو کلاسیکی اساتذہ سے ملانے کے لیے اتنے پرپیچ
راستہ کی کیا ضرورت تھی۔ آپ کو تو لوگ گلی گلی جانتے ہیں گو پوری طرح نہ سہی۔ ”خطاکار
بے ہنر” کے طور پر نہ سہی ”خوددار غم شناس” کے طور پر تو سبھی آپ کے شناسا ہیں۔
آپ کا کلام ہمیشہ سے اچھا ہے مگر اب
کچھ اور بھی اچھا ہوگیا ہے۔
یہ وہ زمین تھی جو آسماں سے اتری تھی
یہ وہ حوالہ تھا جو باربار دینا تھا
وہ اک حسین تھا اس عہد کے حسینوں میں
اسے کسی نے تو کافر قرار دینا تھا
تم اپنے آپ سے ملتے اگر اکیلے تھے
کڑا تھا وقت تو ہنس کر گزار دینا تھا
وہ برگذیدہ شجر لڑ رہا تھا موسم سے
کہ پھولنا تھا اسے، برگ وبار دینا تھا
اٹھائے پھرتے ہو مضطرؔ اجاڑ گلیوں میں
یہ سر کا بوجھ تو سر سے اتار دینا تھا
ایک بہت اعلیٰ پائے کی غزل میں یہ چند
اشعار جو اوپر لکھے ہیںبہت زیادہ اچھے لگے۔ ہاں ایک دو جگہ دوسری قراء ت کی گنجائش
بھی پائی۔
حسینوں کو تو سبھی ‘کافر’ قرار دیتے
ہیں، ورنہ اکثر۔ ‘کسی نے تو کافر قرار دینا تھا’ میں ایک اپنی شان اور قوت ہے اور بڑا
چست مصرعہ ہے مگر اقتضائے حال کے مطابق نہیں۔ ”اسے تو لاکھوں نے کافر قرار دینا تھا”
اپنی ذات میں ویسا بانکا مصرعہ نہیں مگر اقتضائے حال کے زیادہ مطابق ہے بلکہ ”اسے
کروڑوں نے کافر قرار دینا تھا۔”
مقطع بھی بہت بلندہے لیکن اگر میری
بات کو سخن گسترانہ خیال نہ فرمائیں تو اس کے دوسرے مصرعہ کو میں کچھ اس طرح پڑھ لیا
کروں۔
یہ سر تھا بوجھ، تو یہ بوجھ اتار دینا
تھا
آپ کی اس غزل کا مزاج بہت انوکھا اور
پیارا ہے۔ وہ دن یاد آگئے جب لاھول کوہ پیمائی کے لیے آپ کے ساتھ گئے تھے۔ جس طرح آپ
ان دنوں ہمیں ڈانٹا کرتے تھے اسی ادا سے اس غزل میں اپنے آپ کو ڈانٹا ہے۔ قصور آپ کا
نہیں ہمارا ہی تھا کیونکہ اس سفر میں مجھے یاد ہے۔
جھگڑے تھے پھول پھول، لڑے تھی کلی کلی
٭٭٭
لندن /1990/ہش26.6.1369
ہمیشہ کی طرح آپ کا کلام آپ کی اس ذات
کا آئینہ دار ہوتاہے جو سرسری نظر سے دکھائی نہیں دیتی مگر قریب رہ کر گہری نظر کے
مطالعہ سے متعارف ہوتی ہے۔ اگر اس کلام کا وسیلہ نہ ہوتا توآپ مجہول حالت میں اس دنیا
سے رخصت ہوجاتے۔ سوائے ان چند لوگوں کے جن میں مَیں بھی شامل ہوں آپ کے حسنِ مستور
سے کوئی واقف نہ ہوتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں خالدؔ
میں شائع ہونے والی آپ کی نظم بعنوان ”ہرگلی کوچے میں اجلاس شبینہ ہوگا” بہت ہی خوبصورت
اور خوب سیرت ہے۔ یہ دل پر گہرا اثر کرنے والی نظم ہے۔ اسے پڑھ کر حضرت خلیفۃ المسیح
الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی خاص طور پر دعا کی تحریک ہوتی ہے اور آپ کے لیے
بھی۔ اس کا ہر شعر اپنے رنگ میں ایک دلربائی رکھتا ہے لیکن مقطع ایک نئے زاویہئ نگاہ
سے ایک ایسی حقیقت کو دکھانے کا مطلع بن گیا ہے جو اس خوبصورت زاویے سے پہلے کسی نے
شاید لوگوں کو نہ دکھائی ہو ؎
کشتیئ نوح میں بیٹھے تو ہو لیکن مضطرؔ
شرط یہ ہے یہیں مرنا یہیں جینا ہوگا
وفا اور ثبات قدم کا مضمون خوب باندھا
ہے۔ ماشاء اللہ ۔ چشمِ بددُور۔ خداحافظ!
٭٭٭
لندن30.3.95/
”الفضل انٹرنیشنل” کے 17/فروری اور 10/مارچ
کے شماروں میں آپ کی نظمیں پڑھ کر بے حد محظوظ ہؤا ہوں۔ ماشاء اللہ آپ آپ ہی ہیں۔ ہزاروں
لاکھوں نے یہ مضمون باندھے ہوں گے مگر آپ کی تو ادا ہی الگ ہے۔ماشاء اللہ۔ چشمِ بددُور۔
یہ شعر تو بہت ہی پسند آئے ہیں۔
دار پر شب گزر گئی ہو گی
لوٹ کر کون گھر گیا ہو گا
جانتا ہوں دعا کے موسم میں
وہ اکیلا کدھر گیا ہو گا
اس کی آواز کی صداقت پر
لفظ لذّت سے بھر گیا ہو گا
آؤ دریا کی سیر کر آئیں
اب تو پانی اُتر گیا ہو گا
بہت ہی خوب اور تروتازہ کلام ہے۔ واہ
واہ! کیا بات ہے آپ کی۔ اللہ آپ کے عرفان کو اور بھی بڑھائے۔۔۔۔۔۔٭؎۔
اس وقت جماعت کے شعراء میں خداتعالیٰ
نے آپ دونوں کو جو امتیازی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں وہ دوسرے شعراء خواہ مانےں یا نہ
مانےں مگر میں چونکہ شعراء میں سے نہیں ہوں، میں مانتا ہوں۔ اپنی اپنی طرز میں آپ دونوں
بعض دفعہ ایسی شان سے ابھرتے ہیں کہ لکھنے والوں کے قلم ٹوٹ جاتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ
زِدْوَبَارِکْ۔
٭٭٭
٭۔۔۔۔۔۔یہاں پر حضوررحمہ اللہ تعالیٰ نے مکرم
عبیداللہ علیم مرحوم کا ذکر فرمایا ۔
فرانس23.5.89/
آپ کی غزل ماہنامہ مصباح میں پڑھی ہے
۔بہت اچھی غزل ہے۔دل پر گہرا اثر کیا ہے،مگر یہ کوئی نئی بات نہیں۔ہاں اس میں مقطع
سے پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں یعنی ع اے ربِّ ذوالجلال والمیزان بول بھی، کی بجائے
”اے ر بِّ ذوالجلال والاکرام ۔۔۔۔۔۔” ہوتا تو بہتر ہوتا۔ لیکن چونکہ آپ نے انصاف
کا مضمون باندھا ہے ،اس لیے اندازہ ہو گیا کہ میزان پر کیوں آپ کا دل اٹکا اور کیوں
قرآن کریم کے پر شوکت کلام اور عارفانہ محاورہ سے اک ذرا سا ہٹنا پڑا۔
مقطع میں لفظ ”دھل گئیں” چاہیے ۔
غلطی سے ”ڈھل گئیں”لکھا گیا ہے۔الفضل میں شائع ہونے والے آپ کے کلام نے میرے لیے
یادوں کے دریچے کھول دیے ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کے قلب و ذہن کو جِلا بخشے اور لا زوال
رحمتوں سے نوازے۔سب عزیزوں کو میرا سلام دیں۔
٭٭٭
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللّٰہ
تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مکتوبِ گرامی
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
پیارے مکرم محترم چوہدری محمدعلی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امیدہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے خیریت
سے ہوں گے۔ کئی دن سے سوچ رہا تھا کہ دفتری خط وکتابت سے ہٹ کر بھی آپ کو خط لکھوں۔
آپ سے ایک پرانا تعلق بھی ہے اس حوالے سے دعا کے لیے بھی کہوں۔ چند دن ہوئے آپ کا پرانی
یادوںکا پروگرام سنا۔ چند منٹ ہی گو سنا لیکن احساس ہؤا کہ آپ بزرگوں کو اپنی پرانی
یادداشتیں ضرور ریکارڈ کروانی چاہئیں۔ پھر کل ایک مشاعرہ میں آپ کا خاص انداز کے ساتھ
اپنا کلام پڑھنا سنا۔
ماشاء اللہ آواز سے تونہیں لگتا کہ
چوراسی پچاسی سال کا بوڑھا ہے۔ پھر جو کام آپ کررہے ہیں اس عمر میں اور بعض عوارض کے
باوجود اس سے آپ کی قدر اور بڑھتی ہے۔ کچھ بوجھ دوسروں پر بھی ڈالیں اور خود نگران
بنےں۔ زیادہ پریشان نہ ہؤا کریں۔ ہمیں ابھی آپ کی بہت ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کی عمر اور صحت میں
بے انتہا برکت ڈالے۔ دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں۔ کل انشاء اللہ کینیڈا کے سفر پر جانا
ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔
والسلام
خاکسار
مرزامسروراحمد (دستخط)
20/6/04
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں