4۔ گھِراہوا تھا مَیں جس روز نکتہ چینوں میں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ7۔8

گھِراہوا تھا مَیں جس روز نکتہ چینوں
میں

گھِراہوا تھا مَیں جس روز نکتہ چینوں
میں
وہ بے لحاظ کھڑا تھا تماش بینوں میں
وہ کش مکش ہوئی انکار کے قرینوں میں
رہا نہ فرق شریفوں میں اور کمینوں میں
مری خبر سرِ اخبار چھاپنے والا
ملا تو ڈوب گیا شرم سے پسینوں میں
وہ اپنے عہد کی آواز کا ڈرایا ہوا
کھڑا تھا صورتِ دیوار ہم نشینوں میں
نحیف روح بلکتی رہی کنارے پر
بدن کا بوجھ بہا لے گئے سفینوں میں
ق
یہ کس کے عکس کی آہٹ مکان میں آئی
یہ کون ہولے سے اترا ہے دل کے زینوں
میں
وہی لباس، وہی خدّوخال ہیں اس کے
وہ ایک پھول ہے خوشبو کے آبگینوں میں
کبھی تو اس سے ملاقات ہو گی جلسے پر
کبھی تو آئے گا وہ وصل کے مہینوں میں
صلیبِ عشق پہ چڑھنے کی دیر تھی مضطر!ؔ
وہ پھول برسے، گڑھے پڑ گئے زمینوں میں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں