28۔ فرقت کو وصال کر دیا ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ42

28۔ فرقت کو وصال کر دیا ہے

فرقت کو وصال کر دیا ہے
تو نے تو نہال کر دیا ہے
آنسو ہی نہیں مریضِ دل کو
ہر زہر اُبال کر دیا ہے
یہ دین ہے تیری دینے والے!
جو غم بھی ہے پال کر دیا ہے
اتنا تو کیا ہے تو نے قاتل!
اظہارِ مَلال کر دیا ہے
دشنام بھی دی ہے مسکرا کر
پتھّر بھی اُچھال کر دیا ہے
اس کو مرے راستے میں رکھ دو
کانٹا جو نکال کر دیا ہے
فرہاد کا رک گیا ہے تیشہ
پتھّر نے سوال کر دیا ہے
ہم نے سرِ دار مسکرا کر
مشکل کو محال کر دیا ہے
چپکے سے چلا گیا بچھڑ کر
مضطرؔؔ نے کمال کر دیا ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں