46۔ مشتعل ہے مزاج کانٹوں کا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ71۔72

46۔ مشتعل ہے مزاج کانٹوں کا

مشتعل ہے مزاج کانٹوں کا
کیجیے کچھ علاج کانٹوں کا
گل بھی کچھ مسکرا رہے ہیں بہت
کچھ ہے برہم مزاج کانٹوں کا
اک طرف مملکت ہے پھولوں کی
اک طرف سامراج کانٹوں کا
اک طرف پھول کی روایت ہے
اک طرف ہے رواج کانٹوں کا
درمیاں میں کھڑی ہے خلقِ خدا
گل ہیں اور احتجاج کانٹوں کا
سب ادا کر دیا ہے قادر نے
جس قدر تھا خراج کانٹوں کا
اپنی سچائی کی گواہی دی
پہن کر اس نے تاج کانٹوں کا
بھر گیا اس کے خونِ ناحق سے
کاسۂ احتیاج کانٹوں کا
اُس گلِ منتخب کے ِکھلتے ہی
بڑھ گیا احتجاج کانٹوں کا
 اب بھی دل پہ
ہے راج پھولوں کا
راج کل تھا نہ آج کانٹوں کا
آبلوں سے بہت پرانا ہے
رشتۂ ازدواج کانٹوں کا
اوس تو اوس ہے بہر صورت
اشک بھی ہے اناج کانٹوں کا
’’کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘
ہے مرض لا علاج کانٹوں کا
اب تو کانٹے بھی کہتے ہیں مضطرؔ!
کیجیے کچھ علاج کانٹوں کا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں