105۔ یار خود آ گیا قریب مرے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ172

105۔ یار خود آ گیا قریب مرے

یار خود آ گیا قریب مرے
دیکھتے رہ گئے رقیب مرے
چاہتا ہوں، پکارتا ہوں تجھے
بولتے کیوں نہیں مجیب مرے!
ابھی دل کے صنم نہیں ٹوٹے
بت شکن، کاسرِ صلیب مرے
تم تو آؤ سرورِ جاں بن کر
آگے قسمت مری، نصیب مرے
چادرِ عفو میں چھپا لیجے
اور آ جایئے قریب مرے
تیرے محبوبؐ کا غلام ہوں مَیں
زہے قسمت مری، نصیب مرے
"موت کیا زندگی نہیں ہوتی
کیوں پریشان ہیں طبیب مرے
کچھ تو مضمون بھی نرالا ہے
کچھ ہیں عنوان بھی عجیب مرے
نام بدنام ان کے فیض سے ہے
میرے احباب ہیں نقیب مرے
ذکر ہو گا مری وفاؤں کا
زخم بولیں گے عنقریب مرے
ٹوٹ کر بھی ابھی نہیں ٹوٹے
بت نرالے، صنم عجیب مرے
رات جب فاصلے بڑھے مضطرؔ!
شمع اور آ گئی قریب مرے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں