107۔ مرا بیاں ہے بہت مختصر بھی، سادہ بھی

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ174

107۔ مرا بیاں ہے بہت مختصر بھی، سادہ بھی

مرا بیاں ہے بہت مختصر بھی، سادہ بھی
جو سننا چاہو تو اس کا کروں اعادہ بھی
میں اپنے آپ سے بھی کھل کے مِل نہیں
سکتا
اگرچہ اس کا کِیا بارہا ارادہ بھی
عجب نہیں کہ اچانک پرانا ہو جائے
عروسِ عہد کا تازہ تریں لبادہ بھی
مَیں ایک ہوں، کبھی تقسیم ہو نہیں سکتا
اگرچہ بانٹ لو تم مل کے آدھا آدھا بھی
وہ دل کی بات تھی کھل کر زباں پہ آنہ
سکی
اگرچہ اس نے کیا بار بار وعدہ بھی
اسے اکیلے اُٹھاؤ گے کس طرح مضطرؔ!
بدن کا بوجھ ہے اور بوجھ ہے زیادہ بھی
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں