112۔ یوں سوالات سر میں رہتے ہیں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ179

112۔ یوں سوالات سر میں رہتے ہیں

یوں سوالات سر میں رہتے ہیں
جیسے مجبور گھر میں رہتے ہیں
آنسوؤں کو نہ روکیے صاحب!
یہ مسافر سفر میں رہتے ہیں
دشت در دشت آہوانِ خیال
انتظارِ سحر میں رہتے ہیں
فصلِ وحشت میں احتیاطاً لوگ
پا بہ زنجیر گھر میں رہتے ہیں
ہو کے مستور لاکھ پردوں میں
دل میں بستے، نظر میں رہتے ہیں
کس لیے ٹوکتے ہو مضطرؔ کو
کیا یہی شہر بھر میں رہتے ہیں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں