123۔ عرش پر جب اثر گیا ہو گا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ193۔194

123۔ عرش پر جب اثر گیا ہو گا

عرش پر جب اثر گیا ہو گا
نالہ بھی تا سحر گیا ہو گا
مشکل آسان ہو گئی ہو گی
درد حد سے گزر گیا ہو گا
جانتا ہوں دعا کے موسم میں
وہ اکیلا کدھر گیا ہو گا
نارِ نمرود بجھ گئی ہو گی
صحن پھولوں سے بھر گیا ہو گا
دار پر شب گزر گئی ہو گی
لوٹ کر کون گھر گیا ہو گا
آرزو کے محاذ پر کوئی
ضبط کی بازی ہَر گیا ہو گا
اس کی آواز کی صداقت پر
لفظ ّلذت سے بھر گیا ہو گا
روزناموں کا نامۂ اعمال
میری خبروں سے بھر گیا ہو گا
عہدِ غم میں نہ جانے کس کس کی
جاں گئی ہو گی، سر گیا ہو گا
اس میں خنجر کا کچھ کمال نہیں
زخم خود بن سنور گیا ہو گا
آؤ دریا کی سیر کر آئیں
اب تو پانی اُتر گیا ہو گا
کہیں ایسا نہ ہو چھلک جائے
صبر کا جام بھر گیا ہو گا
منہ سے بولا نہیں اگر مضطرؔ
کچھ اشارہ تو کر گیا ہو گا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں