140۔ نے بہ تائیدِ تمنّا، نے بہ تکمیلِ طلب

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ217

140۔ نے بہ تائیدِ تمنّا، نے بہ تکمیلِ طلب

نے بہ تائیدِ تمنّا، نے بہ تکمیلِ طلب
شہر بھر میں کوئی بھی نہ سوسکا فرقت
کی شب
دشت پیمائی کی فرصت تھی نہ رستے کا
شعور
قافلے بڑھتے رہے منزل کی جانب بے سبب
حسن کو جب بھی خود آرائی سے کچھ فرصت
نہ تھی
عشق کا بیمار اب بھی منتظر ہے جاں بلب
آئنہ در آئنہ ہم بھی بہت بے تاب تھے
کچھ تری تصویر بھی لَودے اُٹھی فرقت
کی شب
دوستو! اے دوستو! اے دوستو! اے دوستو!
کوئی ہنگامہ! کوئی نعرہ! کوئی رقصِ
طلب
!
یہ تری آواز تھی یا میرے دل کا شور
تھا
سنتے ہی جس کو گوارا ہو گئی بزمِ طرب
اب کوئی مرنے میں لذّت ہے نہ جینے میں
مزہ
ان کی خوشیاں بے تمنّا، ان کے نالے
بے طلب
صوفی و واعظ، فقیہِ شہر، پیرِ خانقاہ
اب بھی مضطرؔ حسبِ سابق بے نظر ہیں
سب کے سب
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں