138۔ مت بھٹکتا پھرا کرے کوئی

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ215

138۔ مت بھٹکتا پھرا کرے کوئی

مت بھٹکتا پھرا کرے کوئی
شہرِ دل میں رہا کرے کوئی
دین و دنیا کے غم غلط ہو جائیں
ہم کہیں اور سنا کرے کوئی
اب غمِ ہجر بھی گوارا ہے
اب نہ آئے خدا کرے کوئی
رسمِ آہ و بکا بھی عام ہوئی
اب نہ آہ و بکا کرے کوئی
کیوں غرض درمیان میں آئے
جب کسی سے وفا کرے کوئی
ایک گونہ عذاب ہے یہ بھی
دل دریچہ نہ وا کرے کوئی
اب تمھارا بھی انتظار نہیں
تم نہ آؤ تو کیا کرے کوئی
عشق کی رسم مٹ گئی مضطرؔ!
اب نہ ایسی خطا کرے کوئی
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں