143۔ گل یہ کرتا ہؤا فریاد آیا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ221

143۔ گل یہ کرتا ہؤا فریاد آیا

گل یہ کرتا ہؤا فریاد آیا
کوئی گُلچیں ہے نہ صیاد آیا
کھنچ سکی پھر بھی نہ تیری تصویر
کبھی مانی، کبھی بہزاد آیا
اب نہ تیشے کی غلامی ہو گی
نالہ کرتا ہؤا فرہاد آیا
پھر سرِ شام ستارے ٹوٹے
پھر کوئی صاحبِ ایجاد آیا
پھر سرِ شاخ پکاری بلبل
پھر وہی موسمِ فریاد آیا
ہم نے اِک عمر گنوا کر دیکھی
ہم سا کب خانماں برباد آیا
سینکڑوں لوگ نظر سے گزرے
کوئی ہم سا نہ ہمیں یاد آیا
کوئی مضطرؔ سا نہ ہو گا ناداں
شاد ہو کر بھی جو ناشاد آیا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں