142۔ سحر نصیب ہے، سچی دعاؤں جیسا ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ219۔220

142۔ سحر نصیب ہے، سچی دعاؤں جیسا ہے

سحر نصیب ہے، سچی دعاؤں جیسا ہے
وہ دیوتا تو نہیں، دیوتاؤں جیسا ہے
ملا تو کرتا ہے تصویر بن کے خوابوں
میں
وہ اجنبی ہے مگر آشناؤں جیسا ہے
نہ پان بیڑی، نہ سگرٹ، نہ جھوٹ کی عادت
یہ شخص شہر میں رہ کر بھی گاؤں جیسا
ہے
رُکے تو عین اذیّت، چلے تو بادِ مراد
ہمارا اس کا تعلق ہواؤں جیسا ہے
خدا کرے کہ سلامت رہیں حسینؓ اس کے
یہ شہر جیسا بھی ہے کربلاؤں جیسا ہے
بنامِ ترکِ تعلق، بہ فیضِ شامِ فراق
نہ شہر شہر، نہ اب گاؤں گاؤں جیسا ہے
عجب نہیں کہ تجھے چھوڑ کر چلا جائے
وہ باوفا ہے مگر بے وفاؤں جیسا ہے
زہے نصیب کہ اب خیمہ زن ہے پلکوں پر
وہ ایک اشک جو ماں کی دعاؤں جیساہے
جھگڑ رہا ہے صداؤں سے گھر کا سنّاٹا
یہ بے صداہے پہ لاکھوں صداؤں جیساہے
کیا ہے خار نے بھی احتجاج گلشن سے
یہ احتجاج مگر التجاؤں جیسا ہے
اگر بُرے ہو تو گھبرا رہے ہو کیوں مضطرؔ!
سلوک اس کا بُروں سے بھی ماؤں جیسا
ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں