152۔ کس لیے تُو سامنے آیا نہ تھا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ231۔232

152۔ کس
لیے تُو سامنے آیا نہ تھا

کس لیے تُو سامنے آیا نہ تھا
تجھ کو چاہا تھا، فقط سوچا نہ تھا
تیری خاطر میری رسوائی ہوئی
تُو نے میرا حال تک پوچھا نہ تھا
مجھ کو سولی دی گئی بازار میں
تُو نے مجھ پر پھول تک پھینکا نہ تھا
دار پر خواہش کی دیواریں نہ تھیں
دور تک آواز کا پہرہ نہ تھا
تیری منزل کے سوا منزل نہ تھی
تیرے رستے کے سوا رستہ نہ تھا
میرا سایہ بھی تھا میرے ساتھ ساتھ
مَیں اکیلا تھا مگر تنہا نہ تھا
منزلیں لیٹی ہوئی تھیں راہ میں
راہرو کوئی ادھر آیا نہ تھا
ایک تُو تھا، اک تری تصویر تھی
درمیاں حائل کوئی پردہ نہ تھا
مجھ کو خطرہ تھا تو اپنے آپ سے
غیر سے مجھ کو کوئی خطرہ نہ تھا
منتظر بیٹھے تھے سب چھوٹے بڑے
چاند چہرے کا ابھی نکلا نہ تھا
اوڑھ لی تھی ہم نے چادر ذات کی
عشق میں اس کے سوا چارہ نہ تھا
تجھ کو ساری کیفیت معلوم تھی
تُو اگرچہ مُنہ سے کچھ کہتا نہ تھا
مجھ کو تیری بندگی مطلوب تھی
مَیں کسی انعام کا بھوکا نہ تھا
تم تو مضطرؔ! آپ رسوا ہو گئے
اس قدر اصرار بھی اچھّا نہ تھا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں