172۔ دیوارِ رنگ ہر کہیں حائل ہے راہ میں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ262

172۔ دیوارِ
رنگ ہر کہیں حائل ہے راہ میں

دیوارِ
رنگ ہر کہیں حائل ہے راہ میں
ہے
پھول پھول حسن کے زنداں لیے ہوئے
یہ
کیسا دور اُفق سے اٹھا ہے غبار سا
آثارِ
بے قرارئ انساں لیے ہوئے
وہ
چاند آ کے جا بھی چکا، صبح ہو چکی
اب
آ گئے ہو دیدۂ گریاں لیے ہوئے
نرگس
کی آنکھ میں بھی ہے آمادگی کا نور
حیرت
ہے اس کی لذّتِ پنہاں لیے ہوئے
یہ
کون پھر رہا ہے گلِ تر کے آس پاس
پلکوں
پہ اپنی آتشِ عریاں لیے ہوئے
رک
جاؤ دو گھڑی کے لیے تم بھی دوستو
!
ہم
آ رہے ہیں عمرِ گریزاں لیے ہوئے
یوسف
کے انتظار میں مضطرؔ غریب بھی
بیٹھا
ہے کب سے نقدِ دل و جاں لیے ہوئے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں