178۔ کبھی ان کا لطف و کرم دیکھتے ہیں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ268

178۔ کبھی
ان کا لطف و کرم دیکھتے ہیں

کبھی
ان کا لطف و کرم دیکھتے ہیں
کبھی
اپنی حالت کو ہم دیکھتے ہیں
ہم
اپنی طرف کم سے کم دیکھتے ہیں
جو
دیکھیں تو باچشمِ نم دیکھتے ہیں
یہاں
عشق معیارِ قامت نہیں ہے
یہاں
لوگ دام و درم دیکھتے ہیں
چلو
چودھویں رات کی چاندنی میں
ازل
آرزوؤں کا رم دیکھتے ہیں
وہ
بخشش پہ مائل ہیں، مانیں نہ مانیں
ہم
آواز کا زیر و بم دیکھتے ہیں
ہمی
ہیں جو اُن کے لیے جی رہے ہیں
خوشی
دیکھتے ہیں نہ غم دیکھتے ہیں
یہ
واعظ سے کہہ دو کہ آہستہ بولے
صنم
سوئے اہلِ حرم دیکھتے ہیں
محبت
کا انجام کیا ہو گا مضطرؔ
!
نہ
وہ دیکھتے ہیں، نہ ہم دیکھتے ہیں
 چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں