190۔ دل و جاں پہ اس کی حکومت تو ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ283۔284

190۔ دل
و جاں پہ اس کی حکومت تو ہے

دل
و جاں پہ اس کی حکومت تو ہے
حکومت
یہ اب تا قیامت تو ہے
اسے
دیکھنے سر کے بل جاؤں گا
اسے
دیکھ لینے کی حسرت تو ہے
تمھیں
بھی خوشی ہو گی مل کر اسے
وہ
”کافر” سہی خوبصورت تو ہے
میں
اس کے غلاموں کا ادنیٰ غلام
میں
جیسا بھی ہوں اس سے نسبت تو ہے
اگر
کچھ نہیں پاس نقدِ عمل
مرے
دل میں اس کی محبت تو ہے
مَیں
ممنون ہوں اپنی تکفیر پر
کہ
یک گونہ یہ ایک عزّت تو ہے
مَیں
کیسے کروں ہجر کا تذکرہ
کہ
یہ میری اپنی ہی غفلت تو ہے
دعا
کیجیے گا شفا کے لیے
مریض
آپ کا رُوبصحّت تو ہے
ابھی
آئے گا مسکراتا ہؤا
اسے
مسکرانے کی عادت تو ہے
عجب
کیا کہ آجائے وہ خواب میں
اسے
شوقِ سیر و سیاحت تو ہے
عجب
کیا کہ اپنا بنا لے مجھے
اگرچہ
یہ کہنا جسارت تو ہے
محمدؐ
کی، احمد کی، محمود کی
سپرد
آج اس کے نیابت تو ہے
وہی
تو ہے زندوں میں جو نیک ہے
کہ
نیکی اب اس سے عبارت تو ہے
وہی
ایک ہے آج کوہِ وقار
وہی
صاحبِ عزم و ہمّت تو ہے
حسین
و جمیل و حلیم و کریم
سراسر
وہ شفقت ہی شفقت تو ہے
وہ
صادق بھی ہے اور صدّیق بھی
وہ
معیارِ حق و صداقت تو ہے
وہی
آج ہے معرفت کا امیں
وہی
حاملِ علم و حکمت تو ہے
وجود
اس کا اللّٰہ کی دین ہے
اسی
کی وہ ہم پر عنایت تو ہے
وہ
ہے مظہرِ قدرتِ ثانیہ
وہ
اللّٰہ کی ایک آیت تو ہے
وہ
سچا ہے سچوں کا سردار بھی
کہ
ساتھ اس کےسچی جماعت تو ہے
جو
کہتا ہے اس کو وہ کرتا بھی ہے
کہ
سچوں کی یہ اک علامت تو ہے
وہی
تو ہے مہدیؑ کا فرزندِ خاص
وہی
ہُوبہو شکل و صورت تو ہے
خلافت
کی دستار ہے زیبِ سر
امانت
کی کاندھوں پہ خلعت تو ہے
اٹھایا
ہؤا ہے جو بہرِ خدا
یہی
بار بارِ امانت تو ہے
اسے
غم اگر ہے تو اسلام کا
اسے
ہے اگر تو یہ حسرت تو ہے
فتوحات
اس کی گنوں کس طرح
کہ
ہر کام میں اس کے برکت تو ہے
پہاڑوں
سے بھی ہنس کے ٹکرا گیا
اگر
سوچیے یہ کرامت تو ہے
بچا
لے گیا ہم کو طوفان سے
اسی
کا یہ فہم و فراست تو ہے
وہی
ڈھال ہے میرے تیرے لیے
جماعت
اسی سے جماعت تو ہے
وہ
تعویذ ہے آج سب کے لیے
اسی
سے ہماری حفاظت تو ہے
ہے
باطل میں جس سے سراسیمگی
اسی
کا یہ زورِ خطابت تو ہے
زباں
پر کھلے ہیں محبت کے پھول
بیاں
میں عجیب ایک لذّت تو ہے
مدرّس،مربی،
مزکی وہی
وہ
سرچشمۂ رشد و حکمت تو ہے
اگر
مل سکے تو اسے جا کے مل
کہ
تسکینِ جاں کی یہ صورت تو ہے
سدا
جاری ساری رہے سلسلہ
کہ
یہ سلسلہ تاقیامت تو ہے
وہی
آج کوثر، وہی سلسبیل
وہی
وارثِ باغِ جنت تو ہے
وہی
آج ہے مہبطِ جبرئیل
اُسی
پر اُترتا ہے ربِّ جلیل
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں