208۔ مفہوم کو لفظوں کا دریچہ نہیں ملتا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ307۔308

208۔ مفہوم
کو لفظوں کا دریچہ نہیں ملتا

مفہوم
کو لفظوں کا دریچہ نہیں ملتا
وہ
شور ہے، آواز کو رستہ نہیں ملتا
پہچان
نہ لے کوئی وہ ڈرتا نہیں ملتا
ملتا
ہے سرِ عام، اکیلا نہیں ملتا
نشتر
کی طرح وہ جو رگِ جاں میں ہے پیوست
اس
کا تو کسی شخص سے حلیہ نہیں ملتا
تم
نے جو بہم مل کے بنایا ہے عزیزو
!
اس
کا تو مرے شہر سے نقشہ نہیں ملتا
خواہش
کے پہاڑوں کی یہ بے چہرہ چٹانیں
چہروں
میں بدل جائیں تو چہرہ نہیں ملتا
وہ
شوخ جو کل تک تھا محلات کا مالک
آج
اس کو کرائے پہ بھی کمرہ نہیں ملتا
دیکھو
تو سنبھل جاتا ہے چالاک ہے اتنا
آواز
بدل جاتی ہے لہجہ نہیں ملتا
سیلاب
کو شکوہ کہ مرا ذوق ہے پایاب
کشتی
کو شکایت کہ کنارہ نہیں ملتا
دیکھو
تو نظر آتے ہیں یہ لوگ تہی دست
سوچو
تو سرِدار انھیں کیا نہیں ملتا
یہ
آگ کا دریا تھا کہ سنگلاخ زمیں تھی
مضطرؔ
کا کہیں نقشِ کفِ پا نہیں ملتا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں