207۔ قصیدہ تہنیت برموقع آغازنشریات ایم ٹی اے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ305۔306

207۔ قصیدہ
تہنیت برموقع آغازنشریات ایم ٹی اے

یہ
جو ہم اس قدر رہے ہیں ملول
اس
کا انعام ہوگیا ہے وصول
سارے
شکوے گلے ہوئے معزول
سارے
رنج اَور غم گئے ہیں بھول
آسماں
سے سرِ منارۂ ”شرق” ١؎
ابنِ مریم٢؎ ”کا ہو رہا ہے نزول
روز
اُترتا ہے مسکراتا ہؤا
روز
کھلتا ہے وہ گلاب کا پھول
روز
چڑھتا ہے چاند چہرے کا
روز
ہوتا ہے چاندنی کا نزول
روز
للکارتا ہے باطل کو
سرِ
نہرِ فرات ”ابنِ۔بتول
اس
کی للکار، اس کا زورِ خطاب
ایک
تیغِ برہنہ و مسلول
روز
اس کا علاج کرتا ہے
قوم
کو یہ جو ہو گیا ہے زہول
جھوٹ
بھی ان کا بن رہا تھا سچ
میرا
معقول بھی تھا نامعقول
غسلِ
صحّت کیا ہے ٹی وی نے
اس
میں شیطان کر گیا تھا حلول
فوج
در فوج آ رہے ہیں لوگ
ہرطرف
کھل رہے ہیں پھول ہی پھول
چاند
چہرے کو دیکھ لو اک بار
کیوں
عبث دے رہے ہو بحث کو طول
آج
رُوئے زمیں پہ زندوں میں
ایک
ہی آسماں پہ ہے مقبول
جس
صداقت کی دے رہا ہے اذاں
وہ
تو آثار میں بھی ہے منقول
چاند
سورج بتا چکے کب کے
کون
محروم، کون ہے مقبول
معترض
کا بھی کیا گِلہ کرنا
دین
مذہب نہ جس کا کوئی اُصول
بند
کر دے گا سارے دروازے
میرے
بھولے عدو کی ہے یہ بھُول
میری
تضحیک مشغلہ اس کا
میری
تکفیر روز کا معمول
اس
کو غم ہے تو یہ کہ کیوں میں نے
سچ
کو سچ جان کر کیا ہے قبول
مَیں
کہ ہوں ایک ذرّہ ء ناچیز
کتنا
گمنام، کس قدر مجہول
میری
منزل ہے نقشِ پا تیرا
میرا
مقصد تری رضا کا حصول
کاش
مجھ کو یہ مرتبہ مل جائے
کاش
ہو جاؤں تیرے پاؤں کی دُھول
اپنا
دیں ہے بس اس قدر پیارو
!
ایک
اللّٰہ اور ایک رسولؐ
اُٹھ
رہا ہے جو افترا کا دھواں
اُڑ
رہی ہے جو اختلاف کی دُھول
ایک
اک کرکے کاٹنے ہوں گے
بو
رہے ہو جو نفرتوں کے ببول
ہم
جو خاموش ہیں سرِ مقتل
بُزدلی
پر نہ اس کو کر محمول
کچھ
تو واجب ہے پیار پر بھی زکوٰۃ
کچھ
تو لگتا ہے عشق پر محصول
گالیاں
سن کے دے رہے ہیں دعا
تم
بھی مشغول، ہم بھی ہیں مشغول
ہاتھ
قاتل کا روک دے یا رب
!
لفظ
گھائل ہے اَور صدا مقتول
مانگنے
والے! مانگ، دیر نہ کر
منتظر
ہے دعا کا بابِ قبول
١؎
ایم ٹی اے کے زیر استعمال مشرقی یورپ کا سیٹلائیٹ مراد ہے۔
٢؎
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللّٰہ تعالیٰ کی والدہ محترمہ مرحومہؒ کا اسم گرامی
بھی مریم ہے۔
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں