229۔ لذّتِ غم سے بہرہ ور کرنا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ341

229۔ لذّتِ غم سے بہرہ ور کرنا

لذّتِ غم سے بہرہ ور کرنا
اتنا احسان چشمِ تر! کرنا
ڈھا بھی دو اَب انا کی دیواریں
سیکھ لو یہ حصار سر کرنا
تجھ سے مل کر تو اے شبِ زندہ!
جی نہیں چاہتا سحر کرنا
صبحِ صادق ملے گی رستے میں
منہ اندھیرے کبھی سفر کرنا
نیند آئے اگر نہ سولی پر
اس کے سائے میں شب بسر کرنا
بھول جانا تو بھول ہی جانا
یاد کرنا تو عمربھر کرنا
عہدِ غم میں کسی کمینے کو
اس قدر بھی نہ معتبر کرنا
تنِ تنہا کھڑا ہوں مقتل میں
دوستوں کو مرے خبر کرنا
ہم فقیروں کے قتل سے پہلے
اپنے انجام پر نظر کرنا
ایک سچّے کی خاکِ پا ہوں مَیں
فکر میرا نہ اس قدر کرنا
کہیں ایسا نہ ہو کہ جی اُ ٹھے
خاک کو خون سے نہ تر کرنا
وہ سمجھتے ہیں سب اشاروں کو
بات کرنا تو مختصر کرنا
پہلے کر لینا معذرت ان سے
ذکر مضطرؔ کا ہو اگر کرنا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں