233۔ قریب رہ کے بھی وہ ہم سے دور اتنا تھا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ
347۔348

233۔ قریب
رہ کے بھی وہ ہم سے دور اتنا تھا

قریب رہ کے بھی وہ ہم سے دور اتنا تھا
ہمارا اس کا تعلق ضرور اتنا تھا
سوائے اپنے اسے کچھ نظر نہ آتا تھا
فقیہِ شہر کے سر میں فتور اتنا تھا
اسے تھا دعویٰ کہ اُس کے سوا نہیں کوئی
اَڑا ہؤا تھا وہ ضد پر، غرور اتنا تھا
نظر نہ آیا اسے اپنی آنکھ کا شہتیر
وہ آدمی تھا مگر بے شعور اتنا تھا
نشانِ راہ نہ منزل دکھائی دیتی تھی
غبار اب کے برس دور دور اتنا تھا
ق
نظر اٹھا کے اسے دیکھنا تھا ناممکن
مرے حسین کے چہرے پہ نور اتنا تھا
وہ چاہتا تھا تری عاقبت سنور جائے
کسی سے کہتا نہیں تھا، غیور اتنا تھا
ہر ایک چھوٹے بڑے کو اسی سے تھا شکوہ
وہ بے قصور تھا، اس کا قصور اتنا تھا
وہ ملنے آیا تو مَیں اُٹھ کے مل سکا
نہ اسے
تھکن سے میرا بدن چور چور اتنا تھا
مَیں ایک لمس سے ہوش و حواس کھو بیٹھا
مَیں جس کو ضبط پہ اپنے غرور اتنا تھا
گزر چکا تھا میں گفت و شنید کی حد سے
نگاہِ لطف کا مضطرؔ! سرور اتنا تھا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں